(قیصر کھوکھر) نوکر شاہی آج کل ایک عجب کنفیوژن اور افراتفری کا شکار نظر آتی ہے۔ نگران دور اور اگلی آنے والی حکومت کا انجانا خوف نوکر شاہی پر طاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوکر شاہی میں افراتفری کی تاریخ بہت پرانی ہے جب بھی حکومت کے معاملات ادھر ادھر ہونے لگتے ہیں یہ نوکر شاہی بھی اپنا قبلہ تبدیل کرنے اور وعدہ معاف گواہ بننے میں دیر نہیں لگاتی رہی ہے۔ اس وقت افراتفری کی کیفیت بہت بڑھ چکی ہے سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریبان ہیں۔ مقتدر ادارے بھی سیاسی ماحول کا حصہ بن چکے ہیں اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے خلائی مخلوق کا ایک لفظ بھی ایجاد کر دیا ہے۔
نوکر شاہی کے نقطئہ نظر سے ایک مکمل طور پر غیر یقینی کی سی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افسران پریشان ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ بیوروکریسی ایک غیر جانبدار ادارہ ہوتا ہے اور نوکر شاہی کو اپنی غیر جانبداری ہر صورت برقرار رکھنا ہوتی ہے ۔لیکن پنجاب میں ایک ہی سیاسی جماعت کے طویل اقتدار اور شخصی حکمرانی کی وجہ سے نوکر شاہی بھی ایک پارٹی جیسے ماحول کا حصہ بن چکی ہے۔ کئی افسران نے یہ سمجھ لیا تھا کہ پنجاب میں ہمیشہ اقتدار مسلم لیگ ن کا ہی رہے گا جس کی وجہ سے وہ خود ایک افسر شاہی میں ن گروپ کے نام سے مشہور ہو گئے اور اب اگر پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ان افسران کی کہیں بھی جگہ نہیں ہوگی۔
یہ نوکر شاہی کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے کہ وہ اب حالات کو سمجھیں کہ سیاسی اقتدار آنی جانی چیز ہوتا ہے جو ایک دن ختم ہوجاتا ہے لیکن نوکر شاہی کی سروس کیونکہ تیس چالیس سال پر محیط ہوتی ہے لہٰذا انہیں ضابطہ قانون کے مطابق کام کر کے ہی اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنا چاہئے تاکہ ان کا سروس میں بھی نام بن سکے اور بار بار حکومتوں کے بدلنے پر انہیں کالا پانی تبادلہ کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ پنجاب میں افراتفری کا رجحان شروع ہو چکا ہے۔پنجاب میں اقتدار کے آخری دنوں میں تقرر و تبادلوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے سٹاف اور سیکرٹریوں کو پنجاب سول سیکرٹریٹ میں تقرریاں دینا شروع کر دی ہیں اور اس سلسلہ میں پہلا ریلا آبھی چکا ہے۔ کئی افسر نگران دور کے آنے سے چند ہی دن قبل تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ چھ وفاقی سیکرٹری چھٹی پر چلے گئے ہیں اور کئی پنجاب کے محکموں کے سیکرٹریوں نے چھٹی کا پلان تیار کیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے 31 مئی کے بعد تمام قسم کی چھٹیوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور افسران کی چھٹیوں کی درخواستیں واپس کرنا شروع کر دی ہیں۔
نیب کے دفاترے چکر لگانے اور ریکارڈ پیش کرنے والے افسران الگ سے پریشان ہیں کہ اب مسلم لیگ ن کی حکومت کے جانے کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا اور وہ کدھر جائینگے۔ کیونکہ میاں برادران کی حکومت کی چھتری اب ان کے سر پر نہیں ہوگی اور نیب زیادہ سخت طریقے سے احتساب کرےگا۔ یہ افسران شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے اقتدار کے انتہائی آخری دنوں میں جو بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے کر رہی ہے یہ تمام کے تمام نگران دور کے آنے پر واپس ہو جائیں گے اور اس طرح محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی پنجاب ایک مکمل حکومت کو گھر بھیجنے اور نئی حکومت کو آن گراﺅنڈ لانے کےلئے دن رات ٹرانسفر پوسٹنگ کرے گا جو کہ خود ایک انتہائی مشکل کام ہے جس کےلئے دن رات فائل ورک کرنا پڑتا ہے۔ پی ایم ایس افسران میں ایک الگ سے افراتفری پائی جاتی ہے کہ حکومت پنجاب پی سی ایس افسران جنہیں ریونیو اور کلکٹر کا تجربہ ہوتا ہے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر کے ایوان وزیر اعلیٰ میں کام کرنے والے پنجاب سیکرٹریٹ سروس کے افسران کو ڈپٹی کمشنر لگا رہی ہے جس سے ایک جانب ان پی ایس ایس کیڈر کے ڈپٹی کمشنروں کے ماتحت ریونیو عملہ پریشان ہے کہ ان ڈپٹی کمشنروں کو ریونیو کا کام نہیںآتا ہے حکومت نے پی ایس ایس سروس کے افسران کو چکوال میں غلام صغیر شاہد اور سیالکوٹ میں ڈاکٹر فرخ نوید کو ڈی سی لگا رکھا ہے حالانکہ یہ ڈی سی الگ کے رولز کے مطابق اہل ہی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا یہ کیڈر ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ خزانہ خالد نواز عاربی جو کہ ایک سینئر پی ایس ایس افسر ہیں اور محنتی بھی ہیں انہیں اور ان جیسے کئی پی ایس ایس افسران کو نظر انداز کر کے جونیئر پی ایس ایس افسران کو ڈی سی لگایا جا رہا ہے ان کا آخر کیا قصور ہے۔
پے در پے افسران کی چھٹیوں پر جانے سے بھی نوکر شاہی میں افراتفری کا ایک ماحول نظر آتا ہے اگر ان افسران نے ناک کی سیدھ میں ضابطہ قانون کے مطابق کام کیا ہوتا توآج 6 وفاقی سیکرٹریوں کو چھٹیوں پر جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور وہ آج خوش دلی سے کام کر رہے ہوتے ۔ان افسران کو ایک خوف ہے کہ حکومت کہیں جاتے جاتے ان سے کوئی غلط کام نہ کرا لے لہٰذا اب چھٹی پر جانا ہی بہتر ہے کیونکہ ان میں سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے کئی افسران نے پی ٹی آئی سے رابطے بھی شروع کر دیئے ہیں تاکہ اگلا دور محفوظ کیا جا سکے۔ یہ ا فراتفری نوکر شاہی کی خود پیدا کردہ ہے جب ان افسران نے چور دروازے اور حکمرانوں کی شخصی خوشنودی حاصل کر کے بڑے بڑے عہدوں پر تعیناتیاں حاصل کیں تو آج ان کی پریشانی اور افراتفری بجا ہے۔ آنےوالے ونوں اور اگلی حکومت میں وہی افسر اپنے عہدوں پر رہیں گے جو غیر جانبدار رہے اور غیر جا نبد ا ری سے کام کرتے رہے ہیں۔
ویسے تو خوشامدی ہر جگہ پائے جاتے ہیںلیکن پنجاب حکومت میں کئی افسران نے اس خوشامدکریسی کے بدلے بڑے بڑے فائدے بھی حاصل کئے ہیں اور آج وہی افسران افراتفری کا شکار ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا کہا جاتا ہے کہ اگر اگلی آنے والی حکومت مسلم لیگ ن کی ہوئی یا خوشامد پرستوں کی ہوئی تو یہ افسران بچ جائینگے اور ایک بار پھر خوشامد کر کے اہم عہدوں پر فائز رہینگے اگر اگلی آنے والی حکومت نے میرٹ پر کام کئے تو یہ افسران مسلسل افراتفری کا شکار رہیں گے۔