سٹی42: حماس نے کہا ہے کہ غزہ میں رات بھر اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 85 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔ حماس کی حامی ایک نیوز آؤٹ لیٹ نے جنگ بندی ٹوٹنے کے تیسرے دن مرنے والوں کی تعداد 71 بتائی ہے۔ روئٹرز نیوز ایجنسی کے مقامی نمائندہ نے اسرائیلی ائیر سٹرائیکس کے تیسرے روز مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی ہے جو 91 ہے۔
حماس کےاہلکاروں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے رواں ہفتے علاقے میں بمباری اور زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے بعد، دو دنوں کے دوران فضائی حملوں میں 450 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے میں توسیع کے لیے بات چیت میں پیش رفت نہ ہونے کے بعد منگل کو دوبارہ حملے شروع کیے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بدھ کو اعلان کردہ زمینی کارروائی جنوری میں شروع ہونے والی جنگ بندی معاہدے کی 'نئی اور خطرناک' خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے حماس کے کسی ممکنہ حملے سے محفوظ رکھنے کے لئے جنوبی اسرائیل میں سرحد کے دوسری طرف غزہ کے علاقہ کو بفر زون بنانے کا آغا کل بدھ کے روز کیا۔
اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ جب تک حماس باقی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی غزہ میں حماس سے متعلق ہر ٹھکانے پر حملے مزید تیز کیے جائیں گے۔
حماس کے پاس اب 59 اسرائیلی یرغمالی ہیں اور خیال ہے کہ ان میں سے 24 زندہ ہیں۔ ان 24 زندہ یرغمالیوں اور باقی لاشوں کو واپس کرنے سے حماس کے انکار کے بعد جنگ بندی ٹوٹی تو تین دن میں پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی میں توسیع کیوں نہ ہو سکی
اسرائیل اور حماس اس بات پر متفق ہونے میں ناکام رہے کہ جنگ بندی کو اس پہلے مرحلے سے آگے کیسے لے جانا ہے، جنگ بندی کی میعاد یکم مارچ کو ختم ہو گئی تھی۔ حماس نے اسرائیل کی تجاویز پر جنگ بندی پر دوبارہ گفت و شنید کرنےسے اتفاق نہیں کیا۔
حماس کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلہ میں 42 دنوں کے دوران اسرائیلیوں کے مقدس چھٹی کے دن ہر ہفتے کے روز دو دو تین تین کر کے 26 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جن میں خواتین اور بوڑھے شامل تھے۔
جنگ بندی معاہدہ 19 جنوری کو شروع ہوئی تھی اور اس کی طے شدہ مدت 42 دن 2 مارچ کو تمام ہو گئی تھی۔ اس جنگ بندی کے ختم ہونے کے بعد حماس نے باقی 59 یرغمالیوں کی رہائی کے عوض غزہ خالی کرنے اور مستقل جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا جب کہ اسرائیل کا اصرار تھا کہ حماس باقی یرغمالیوں کو جن میں سے صرف 24 زندہ ہیں ، ایک ہی بار اسرائیل واپس بھیجے اور مستقل جنگ بندی کے لئے حماس غزہ سے دستبردار ہو۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے غزہ مین فوجی طاقت کی حیثیت سے موجود رہتے ہوئے وہ مستقل جنگ بندی نہیں کرے گا۔
اسرائیل حماس کو غزہ کی لجیٹیمیٹ حکمران نہیں مانتا کیونکہ اسے امریکہ نے طویل عرصہ سے دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور 7 اکتوبر 2023 کو بھی حماس نے پانچ ہزار مسلح جنگجوؤں کی مدد سے اسرائیل کے اندر گھس کر جو کارروائی کی اسے اسرائیل کھلی دہشتگردی تصور کرتا ہے کیونکہ اس کا نشانہ سویلین بنے تھے جن میں میوزک فیسٹیول میں موجود نہتے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی شامل تھے۔
دباؤ کی ابتدا
اسرائیل نے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے مارچ کے آغاز میں غزہ میں خوراک، ایندھن اور طبی سامان کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ اس سامان کو اسرائیل کے خلاف اپنی حکمت عملی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، اسرائیل اور حماس کی یہ لڑائی سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی تھی جس میں تقریباً 1,200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، مارے گئے تھے اور 251 دیگر کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران 25 اسرائیلی اور پانچ تھائی یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
حماس کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں ہونے والے حملے کا جواب اسرائیل نے ایک بڑے فوجی حملے کے ساتھ دیا، جس میں 48,500 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے، جن میں زیادہ عام شہری تھے۔ اسرائیل مرنے والوں مین سے نصف کے لگ بھگ کو حماس کے مسلح کارکن تصور کرتا ہے۔
اسرائیل کی جارحیت سے گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی بھی بڑی مقدار میں تباہی ہوئی ہے۔
تیسرے دن مزید 71 افراد مارے گئے
حماس کی حامی ایک نیوز آؤٹ لیٹ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ رات 71 افراد ہلاک ہوئے۔
حماس کی حامی قدس نیوز آؤٹ لیٹ نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کی پٹی میں اسرائیلی حملوں میں 71 افراد مارے گئے، جس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 540 ہو جائے گی جب سے اسرائیل نے منگل کی صبح غزہ میں اپنی فوجی مہم دوبارہ شروع کی ہے۔
نیوز آؤٹ لیٹ نے اطلاع دی کہ رات بھر خان یونس، رفح اور غزہ کے دیگر حصوں کے ارد گرد فضائی حملے کیے گئے۔
ٹائمز آف اسرائیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مرنے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے اور حماس کے ماتحت "صحت کے حکام" کے اعداد و شمار پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ (حماس کی نام نہاد وزارتِ صحت)عام شہریوں اور جنگجوؤں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہا ہے اور حماس اور اس کے اتحادی گروپوں کو اجتماعی نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اور کہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
20 مارچ 2025 کو جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد فلسطینی اپنے رشتہ داروں کو ناصر ہسپتال میں دفن کر رہے ہیں۔ (عبید رحیم خطیب/Flash90)
غزہ کی پٹی میں دہشت گرد گروہوں نے 59 یرغمال بنائے ہوئے ہیں، جن میں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیرقیادت دہشت گردوں کے ذریعے اغوا کیے گئے 251 میں سے 58 شامل ہیں۔ ان میں وہ 24 یرغمالی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں جانا جاتا ہے یا ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، اور کم از کم 35 کی لاشوں کی IDF نے تصدیق کی ہے۔