( ملک اشرف ) چیف جسٹسں لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ہم ایمرجنسی میں ہی، بین الاقوامی سٹینڈرڈ نہ اپنائے تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے، عدالت نے کورونا سے متعلق درخواستوں پر اٹارنی جنرل کو نوٹس اور معاون خصوصی ظفر مرزا سے رپورٹ طلب کرلی۔
کورونا سے متعلق درخواستوں کی ہائیکورٹ کے چار کنی بینچ نے سماعت کی، جس میں سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نبیل اعوان اور پرائمری ہیلتھ کیپٹن ریٹائرڈ عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاسم خان نے کہا قرنطینہ کا مطلب سب کو الگ الگ رکھنا ہوتا ہے، چار چار لوگوں کو اکٹھا رکھنا قرنطینہ نہیں۔ بہاولپور قرنطینہ میں لوگوں کو بہتر طریقے سے نہیں رکھا گیا، انکی دیکھ بھال کرنے والے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا ڈیوٹی دینے والوں کی دو دو ہفتے کی ڈیوٹیاں لگانا بہتر ہے۔ روزانہ آنے جانے سے دیگر لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ سیکرٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان نے کہا کوشش کررہے ہیں کہ کسی پیرامیڈیکس اسٹاف کو کچھ نہ ہو، اگر کسی کو کچھ ہوگیا تو خدشہ ہے کہ پیرا میڈیسن کام بند کردی گے۔
عدالت نے بہاولپور اور ملتان میں دیی جانیوالی سہولتوں بارے پوچھا تو محمد عثمان نے جواب دیا کہ حکومت نے شوکت خانم کو کٹس فراہم کی جو مفت میں ٹیسٹ کررہے ہیں جبکہ چغتائی لیب پیسے لیکر ٹیسٹ کررہی ہے۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ دس کڑور عوام کیلئے بس دو جگہ مختص کرنا کافی ہوگا، اسے بڑھانا ہوگا۔ دو چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ کرے سب محفوظ رہیں لیکن کچھ چیزیں ہمیں پہلے کر لینی چاہیے۔ دو، دو ہزار کلومیٹر سے لوگوں کو لیکر شہروں میں لارہے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ وائرس پھیلا رہے ہو۔
جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا آپ ان لوگوں کو وہاں سے ٹیسٹ کرکے کیوں نہیں لارہے، سیکرٹری ہیلتھ نے کہا کہ ہم ٹیسٹ لیکر لوگوں کو شفٹ کررہے ہیں جو متاثر ہیں انہیں الگ کر لیتے ہیں۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ جہاں قرنطینہ بنائے گئے ہیں اس کے اردگرد کے لوگوں کیلئے حفاظتی اقدامات ہونے چاہیے۔ جیل میں قیدیوں کے رشتے داروں سے ملاقات کے شیشیے لگائے جاسکتے ہیں۔
عدالت نے قرنطینہ سنٹرز میں دی جانیوالی سہولیات کے حوالے تفصیلات طلب کرتے ہوئے وفاقی صوبائی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔