(ملک اشرف) زینب قتل کیس کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہوں گے، جی وہی معصوم زینب جسے قصور میں ایک درندہ صفت شخص عمران نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
ننھی زینب کے قتل کی خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی، لاہور سمیت ملک بھر میں ننھی زینب کو انصاف دلانے کیلئے احتجاج ہوئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیس ہائی پروفائل بن گیا، حکومت، چیف جسٹس اور آرمی چیف نے اس پر نوٹس لیا۔
تمام سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں نے انتھک محنت کے بعد قاتل کو ڈھونڈ نکالا اور عدالت میں مقدمہ چلا، ایک ماہ سے زائد عرصہ تک مقدمہ کی سماعتیں ہوئیں اور قاتل کو چار مرتبہ سزائے موت سمیت دیگر سزائیں دینے کا فیصلہ سنایا گیا لیکن تاحال قاتل کو پھانسی نہیں دی گئی۔
زینب کے قاتل عمران کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر آج لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان اور جسٹس شہرام سرور نے سماعت کی۔مجرم عمران کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ دوران ٹرائل میں نےعدالت کا قیمتی وقت بچانے کے لئے عدالت کے سامنے اقرار جرم کیا، ترقی یافتہ ممالک میں اقرار جرم کرنے والے مجرموں کے ساتھ عدالتیں نرم رویہ اختیار کرتی ہیں۔
قاتل عمران نے استدعا کی گئی کہ وہ غربت کے باعث وکیل کی خدمات حاصل نہیں کر سکتا لہذا عدالت عالیہ اس کی سزا میں نرمی کرے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عبدالصمد خان نے مجرم عمران کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجرم عمران کیخلاف تمام شواہد موجود ہیں، انسداد دہشتگردی عدالت نے تمام قانونی پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد زینب قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد زینب قتل کیس کے مجرم کو سزائے موت دینے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے عمران کی بریت کیلئے دائر اپیل خارج کردی۔