جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس،مستقبل میں کیا ہونیوالا ہے؟

20 Jun, 2020 | 11:18 AM

Azhar Thiraj

سٹی 42: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ آگیا ،یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے دیا، یہ کیس منطقی انجام کو نہیں پہنچا ،جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیداد کا معاملہ ایف بی آر کے سپرد کردیا گیا ہے، حکومت جسٹس فائز عیسیٰ ٰ کیخلاف کیس ہارگئی، سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف حکومتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے،فیملی کی جائیداد کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجا گیا ہے،ایف بی آر میں ناقابل تردید منی ٹریل ثابت کرنی ہوگی،بصورت دیگر کیس پھر جوڈیشل کونسل کو بھیجا جائے گا۔اس کیس میں مورخ کا فیصلہ محفوظ ہے۔مستقبل میں کیا ہونیوالا ہے؟ سینئر قانون دانوں ،حکومتی نمائندوں نے  بتادیا۔

سابق وزیر قانون،حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ میں یہ کیس ہارا نہیں بلکہ جیت گیا ہوں،یہ ہار جیت کا کیس نہیں تھا،سپریم کور ٹ نے سوموٹو والا پرپوزل مانا ہے،ایف بی آر کو کیس بھیجنے کی رائے بھی ہماری تھی ،عدالت نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیداد کی چھان بین کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا ہے،ان کیخلاف ہمارا کوئی بغض نہیں،جسٹس صاحب کی اہلیہ اگر یہ منی ٹریل دے دیتی ہیں تو معاملہ حل ہوجائے گا۔جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی اہلیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دساویزات دکھائی ہیں،کوئی ٹھوس کاپی جمع نہیں کرائی ہے،پاکستان کی عدلیہ کی آزادی ہے اور ججز کی خود احتسابی کیلئے بھی اچھا دن تھا۔بینچ نے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی اہلیہ کو ہارڈ کاپی جمع کرانے کا کہا تھا ،انہوں نے خود ویڈیو لنک کے ذریعے پسند کیا ہے،اگر وہ پراپر منی ٹریل دے دیتی ہیں تو وزیر اعظم عمران خان سمیت ہم سب ان کے ساتھ ہوں گے۔

جب جسٹس قاضی فائز صاحب اچانک عدالت میں آئے تو مجھے تکلیف ہوئی ،میں نے اپنی قابلیت کے مطابق سامنا کیا ، میں جیت کر بھی تکلیف میں ہوں، سپریم کورٹ میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے جج کیخلاف فیصلہ سنا۔عدالتی فیصلے میں بدنیتی کا لفظ شامل نہیں،میڈیا میں غلط چلایا جارہا ہے،ابھی اس چیز کا تعین ہونا ہے کہ بینچ نے کس بنیاد پر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا ہے،اس کیس کو حل کرنے کے تین طریقے تھے۔ سپریم کورٹ نے سو موٹو پاور کے طریقے کو اپنا یا ہے،دعا کرتا ہوں جسٹس صاحب کی فیملی کے پاس منی ٹریل ہو،اگر وہ منی ٹریل نہیں دے سکے تو ایف بی آر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا،اب اس میں حکومت کا عمل دخل ختم ہوگیا ہے،اب معاملہ ایف بی آر ،سپریم جوڈیشل کونسل اور جسٹس قاضی فائز صاحب کی فیملی کا ہے۔

سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی خواہش ہے کہ ان جائیدادوں کا فیصلہ سامنے آجانا چاہئے،تاکہ عوام کے سامنے شفافیت آجائے،یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے،ایک چیز سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید پر چھوڑ ی گئی ہے کہ اپیل کا انتظار کرنا ہے یا اپیل کا فیصلہ آئے بغیر معاملے کو آگے چلانا ہے،تین ججوں نے معاملہ ایف بی آر کو نہ بھیجنے کی بندش نہیں لگائی ،سات ججوں نے ایک ضابطہ دے دیا ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر کا نگران بن گیا ہے،ساٹھ دن کا وقت بھی متعین کیا گیا ہے۔سیرینا فائز کے وکیل پیش ہوں گے،ان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کی کوئی قدغن نہیں ۔

معروف قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے جہاں تک بات جسٹس قاضی فائز صاحب اور ان کی جائیداد کی چھان بین کا معاملہ ہے  تو یہ  رہے گا،مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ سپریم کورٹ کے بینچ نے کس اختیار کے ساتھ معاملہ ایف بی آر کو بھیجا ۔ایف بی آر پر قانون کے تحت کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ عدالت نےمعاملہ دوبارہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنےکاامکان پیدا کردیا، سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل امورمیں مداخلت نہیں کرسکتی،سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کالعدم کرائی،افتخارچودھری کےریفرنس کوکسی نےپڑھا تک نہیں تھا،میں نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ ثابت کیا تھا،کالعدم قرار دیےگئےجسٹس فائزعیسیٰ ریفرنس میں سقم نہیں تھا،سقم نہ ہوتوریفرنس کےقابل سماعت ہونےیانہ ہونےکاسپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کرسکتاہے،2010 کےبعدکوئی بھی ججزکےخلاف ریفرنس دائرکراسکتاہے،جسٹس فائزعیسیٰ اوراہلیہ کےاثاثوں کامعاملہ ابھی حل طلب ہے،جسٹس فائزعیسیٰ اوراہلیہ کےاثاثوں کامعاملہ ابھی حل طلب ہے،ریفرنس کالعدم دینےکیلئے ٹھوس شواہدعدالت کوحاصل نہیں تھے،عدالت کےپاس معاملہ ایف بی آرکوبھیجنےکااختیارنہیں تھا، سپریم کورٹ کاریفرنس کالعدم قراردینےکافیصلہ درست نہیں ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے کیس میں نہیں پیش نہیں ہونا چاہئے تھا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ جو فیصلہ کے بارے میں رپورٹنگ ہوئی اس میں کہا گیا کو ایسٹ ریکوری یونٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے،میں نے تحریری فیصلے میں ایسا کوئی بھی لفظ نہیں دیکھا۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے معاملےپردرخواست آئی تووہ مختلف تھی،بیرون ملک جائیداد ہونا کوئی جرم نہیں اگر یہ قانونی ہو،میں ابھی اتنا امیر انہیں ہوا کہ میری بیرون ملک کوئی جائیداد ہو،کوئی لاٹر ی نکل آئی تو پھر شاید کوئی جائیداد بن جائے۔پبلک آفس ہولڈر کو اپنی جائیدادیں ظاہر کرنا ہوتی ہیں اگر وہ ظاہر نہیں کرتا تو پوچھ گچھ ضروری ہوتا ہے اور یہ بھی فرض کیا جاتا ہے کہ شاید اس نے یہ جائیداد غلط طریقے سے بنائی ہو۔

ماہر قانون بابر ستار نے کہا ہے کہ جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف  ساری باتیں بدنیتی پر مبنی تھیں ،جج صاحب کا میڈیا ٹرائل کیا گیا،عدالت نے ریفرنس کالعدم قرار دیدیا ہے،جن لوگوں نے ریفرنس بنایا ان کا ذکر نہیں۔اگر یہ ریفرنس کالعدم قرار دیا گیا ہے کہ تو اس کے نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں،سوال پوچھنا ہے تو سب سے پوچھیں،اس فیصلے کی مایوس کن بات یہ ہے کہ ریفرنس بنانے والوں کو بچایا گیا،میں اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہوں۔

ماہرقانون عرفان قادر نے کہا کہ مختصر فیصلہ بہت مختصر ہے،ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی،صرف اہلیہ کی جائیدادوں کی چھان بین کیلئے ایف بی آر کو اختیار دیا گیا،صدر مملکت کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ ٹیکس کمشنر کی بات سنی گئی ہے،عدالت کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بیگم صاحبہ کی جائیداد ہے،وہ جائیداد رکھنے میں آزاد ہیں۔ایف بی آر سے امید ہے کہ اچھا فیصلہ کرے گا،ماضی میں تو بیوروکریسی طاقتوروں کے ساتھ رہی ہے۔اگر بیگم صاحبہ جائیداد کے معاملے میں خومختار ثابت ہوتی ہیں تو پھر جج صاحب پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔

مزیدخبریں