ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مصنوعی ذہانت (AI) سے صحافت کی کون سی ملازمتیں خطرے میں؟  

Artificial inteligence,City42
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) گوگل کی جانب سے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمپنی خبر کے مواد کی تحریر کیلئے مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔

 بین الاقوامی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوگل صحافیوں کو ان کے مختلف کاموں میں معاونت کیلئے مصنوعی ذہانت کے استعمال کی خاطر صحافتی اداروں کیساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔

 نیویارک ٹائمز کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گوگل واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اداروں کیساتھ یہ معاملات طے کررہا ہے۔

 خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت صحافیوں کو ہیڈلائنز (شہ سرخیاں) اور لکھنے کی صلاحتیں بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ مصنوعی ذہانت کسی بھی صورت اس حوالے سے صحافیوں کے کلیدی کردار کو ختم نہیں کر سکتی جو رپورٹنگ یا خبر کی تصدیق کیلئے ضروری ہیں۔

 یونیورسٹی آف کینٹ کے سینٹر آف جرنلزم مستقبل میں مصنوعی ذہانت سے لیس نیوز رومز کے بارے میں تحقیق کررہا ہے۔ وہاں کے پروفیسر این ریویس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ناصرف مصنوعی ذہانت کی تمام صورتیں نیوز روم میں مناسب اور باقاعدہ سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں بلکہ وہاں پیش آنیوالی پیشہ وارانہ مشکلات کو بھی بڑی آسانی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

 یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تمام مہارتیں آنے والے وقت میں صحافیوں کیلئے سیکھنا ناگزیر ہوگا کیونکہ آنیوالے وقت میں مصنوعی ذہانت صحافت کی ایسی سرگرمیوں میں کام کرنیوالے لوگوں کی جگہ لینے کو تیار ہوگی جو ان مہارتوں سے ناواقف ہوں گے اور صرف مختلف نوعیت کا صحافتی مواد لکھنے سے منسلک ہوں گے۔ ایسے صحافتی ادارے مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے لوگوں کو نوکریوں سے برخاست کرنے کے مجاز ہوں گے۔

 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مصنوعی ذہانت کے خطرات پر منگل کے روز اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا، جس کی صدارت رواں ماہ ادارے کے صدر برطانیہ نے کی۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمس کلیورلی نے اس موقع پرکہا کہ "مصنوعی ذہانت بنیادی طورپر انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بد ل دے گی۔"

 برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ "ہمیں تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجیز پر گلوبل گورننس تشکیل دینے کی فوری ضرورت ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور معیشتوں کو فروغ دینے میں مدد کرسکتی ہے تاہم انہوں نے خبر دار کیا کہ ٹیکنالوجی غلط معلومات کو ہوا بھی دیتی ہے اور ہتھیاروں کی حصولیابی میں ریاستی اور غیر ریاستی دونوں ہی عناصر کی مدد کرسکتی ہے۔

 اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے مصنوعی ذہانت کو دو دھاری تلوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین اے آئی کے رہنما اصولوں کی تیاری میں اقوام متحدہ کے مرکزی رابطہ کار کے کردار کی حمایت کرتا ہے۔

 ژانگ کا کہنا تھا، "خواہ یہ اچھا ہو یا برا، نیک ہو یا بد، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بنی نوع انسان اسے کس طرح استعمال کرتی ہے، اسے کس طرح منظم کرتی ہے اور ہم سائنسی ترقی اور سلامتی کے درمیان کس طرح توازن پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ترقی کو منظم کرنے کے لیے لوگوں اورمصنوعی ذہانت کی اچھائی کے استعمال پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور اس ٹیکنالوجی کو "بے لگام گھوڑا "بننے سے روکنا ہوگا۔