(وقار گھمن) معاشی حالات بہترنہ ہونے سے مزدور دیہاڑی سے بھی گیا۔ مزدور سارا سارا دن دیہاڑی لگنے کی آس لگائے انتظار کرنے لگے۔ ہفتہ ہفتہ مزدوری نہیں ملتی،بیوی بچے بھوک سےبلکتے ہیں۔ داستان زندگی سناتےسناتے بزرگ مزدور کی آنکھیں بھرآئیں۔
پیکو روڈ کےمزدور اڈا جہاں دن گزرجانے کےباوجود بھی مزدوروں کی ایک لمبی قطارلگی ہے جواس امید پر بیٹھے کہ شاید کوئی گاہک فرشتہ بن کر آئے اور انہیں مزدوری کے لیےساتھ لے جائے، ان میں اکثریت مزدوروں کی عمریں پچاس سےساٹھ سال کےدرمیان ہیں۔
انہیں مزدوروں میں ایک ساٹھ سالہ محمدزاہد ہیں جو کئی روز سےمزدوری نہ ملنےکی وجہ سےہاتھ پرہاتھ دھرے پریشان بیٹھا ہے جس کا کہنا تھا کہ صرف آس اور امید پرجی رہےہیں۔ محمدزاہد کی یہ کہتے ہوئے آنکھیں بھرآئیں کہ گھر والےکہتے ہیں خود تو باہر کہیں سےکھا آئےہوہمارے لیےکیا لائے ہو۔ بھلا ہو مخیر حضرات کا جو ان مزدوروں کو ایک وقت کا کھانا تودے دیتے ہیں،ورنہ نوبت تو فاقوں تک پہنچ جائے۔
موجودہ حالات میں صحیح معنوں میں اگر کسی کا جینا مشکل ہوا ہےتو وہ یہ غریب مزدور ہیں،جن کا اور کوئی دوسرا آسرا نہیں ہے۔