(قیصر کھوکھر) پنجاب حکومت نے تمام آر پی اوز اور تمام ڈویژنل کمشنرز کو ہفتے میں ایک دن بعد از نماز جمعہ اپنے دفاتر کے باہر کھلی کچہریاں لگانے کا نوٹس جاری کیا ہے جس کے تحت افسر شاہی نے پہلی بار کئی سالوں کے بعد اپنے دفاتر کے باہر عوام کے لئے وقت نکالا ہے۔
ہفتے میں ایک دن کھلی کچہری لگانا ناکافی عمل ہے۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ افسر شاہی کو اس بات کی پابند کرے کہ وہ روزانہ کم از کم دو گھنٹے یا ہر وقت اپنے دفاتر کے دروازے عوام کے لئے کھول کر رکھیں اور ہر آنے والے سائل کی شکایت سنیں اور اس پر فوری طور پر ماتحت عملہ یا افسران کو عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ کسی شکایت کو حکام بالا تک پہنچانے کے لئے ساتویں روز کھلی کچہری کے انتظامات کرنا ناکافی عمل ہے۔ حالانکہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر رکھا ہے کہ تمام افسران صبح دس بجے سے دن بارہ بجے تک عوام کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھیں لیکن اس پر کسی بھی طور پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔
ویسے تو کھلی کچہری لگانے کی پنجاب میں ایک پرانی روایت ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بطور وزیر اعظم ماڈل ٹاﺅن لاہور میں کھلی کچہری لگاتے رہے ہیں۔ سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود نے پہلی بار افسران کو ان کے قلعہ نما دفاتر سے باہر نکالا اور عوام کے سامنے بٹھایا۔ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ اپنے دورمیں اسی طرح کی بڑھکیں مارتی ہے اور افسر شاہی کو اوپن ڈور پالیسی اور کھلی کچہریاں لگانے کا حکم دیتی ہے کچھ عرصہ بعد حکومت دیگر امور میں مصروف ہو جاتی ہے اور پھر وہی نئی بوتل پرانی شراب والی بات چل نکلتی ہے ۔ اگر بغور حالات کا جائزہ لیا جائے تو افسران تک عوام کی رسائی بہت ضروری ہے، اگر عوام کو افسر شاہی تک رسائی مل جائے تو عدالتی چارہ جوئی بھی کم پڑ جائے گی۔ یہ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری تک محدود ہے کہ وہ کس طرح کھلی کچہریوں کے فیصلوں پر عمل درآمدکراتے ہیں یا ماضی کی طرح یہ حکم بھی افسر شاہی ہوا میں اڑا دیتی ہے۔
کھلی کچہری لگانا ایک آسان کام ہے لیکن اس کھلی کچہری کے فیصلوں پر عمل کرانا اور ان ایشوزکو فالو کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کھلی کچہری کے دوران ملنے والی شکایات کو ڈیل کرنے کیلئے ایک صوبائی سطح پر ایک سیل بنایا جائے تاکہ وہ شکایات جو بھی تحصیل یا ضلع کی سطح پر موصول ہوں، ان کو تحصیل کی سطح سے لے کر صوبائی سطح تک دیکھا جا سکے اور ایگزامین کیا جا سکے لیکن افسر شاہی کوان کھلی کچہریوں کے دوران خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں کچھ پیشہ ور”شکایتی“ افراد ہیں جو کھلی کچہریوں میں آتے رہتے ہیں اور پیشہ ورانہ طور پر اپنی شکایات دفاتر میں درج کرانے کے ماہر ہیں۔ ان کھلی کچہریوں کے دوران ان پیشہ ورشکایتی افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے اور صحیح اور درست شکایات رکھنے والے افراد کی مدد کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کا خزانہ خالی ہے ۔ افسران کو ٹی اے ڈی اے دینے کے لئے خزانہ میں پیسے نہیں ۔ کھلی کچہری میں اگر شکایات سڑکوں کی تعمیر، سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے اور صفائی ستھرائی سے متعلق موصول ہونے لگیں تو خزانہ خالی ہونے سے ان شکایات پر عمل نہیں ہو سکے گا۔ پنجاب حکومت کو ان افسران کو کھلی کچہری کے دوران ملنے والی شکایات پر عمل کرنے کا مکمل اختیار بھی دیا جائے اور ان افسران کو غیر سیاسی اور مکمل آزادانہ فیصلے کرنے والا ماحول بھی فراہم کیا جائے تاکہ فیصلے بھی درست ہو سکیں اور شکایت کرنے والے افراد بھی مطمئن ہو سکیں۔
اسی طرح کمشنرز اور آر پی اوزا ور ڈی پی اوز اور ڈی سیز کی کھلی کچہریاں لگانا ایک درست قدم ہے لیکن ساتھ ساتھ چیف سیکرٹری ، متعلقہ محکمے کے وزیر اور وزیر اعلیٰ کو بھی کھلی کچہری لگانے کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ ان افسران کی بھی مانیٹرنگ ہو سکے اور دیکھا جا سکے کہ کون سا فیلڈ افسر درست طور پر کام نہیں کر پا رہا ہے اور کون سے ضلع کی انتظامیہ کےخلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب وزیراعلیٰ، وزرا، چیف سیکرٹری اور محکموں کے سیکرٹری از خود کھلی کچہریاں لگائیں گے۔
چھوٹے شہروں میں سب سے زیادہ مسائل صحت کے ہوتے ہیں،وہاں قائم ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے، ادویات تو دور کی بات ہے عملہ بھی کئی کئی دن غائب رہتاہے اور حاضریاں تسلسل کیساتھ لگ رہی ہوتی ہیں۔ مریض ایمرجنسی میں ہسپتال آتا ہے مگرعملے کی عدم دستیابی کے باعث یا تو جان کی بازی ہار جاتا ہے یا اسے دوردرازکے کسی ہسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کھلی کچہریوں کا اقدام لائق تحسین ہے مگر اس کیلئے بیوروکریسی کی ذہن سازی کی جانابھی ضروری ہے تاکہ وہ عوام کے حقیقی خادم بن کران کی خدمت کر سکیں۔