سٹی42: امریکہ کی فوج نے جمعہ کے روز ایک غیر متوقع انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ شام میں امریکی فوج نے ایک ہوائی حملے میں داعش کے ایک مشہور کمانڈر اور اس کے ایک ساتھی کو ہلاک کر دیا۔
شام کے بیشتر علاقوں پر 27 نومبر سے 8 دسمبر تک ہئیت تحریر کی سرکردگی میں 38 مسلح گروپوں کے اتحاد کے قبضہ کے دوران اور اس کے بعد ایک ہفتہ میں امریکہ کی جانب سے شام میں کسی فوجی کارروائی کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی تھی تاہم آج جمعہ کے روز سینٹ کوم نے اعلان کیا کہ جمعرات کو مشرقی شام کے صوبہ دیر الزور میں ایک ائیر سٹرائیک میں آئی ایس آئی ایس (داعش) کے مشہور کمانڈر ابو یوسف کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ دمشق پر ہئیت تحریر کے قبضہ کے ہی دن- 8 دسمبر کو - واشنگٹن نے داعش کے 75 سے زیادہ اہداف پر حملوں کا اعلان کیا جس کے بارے میں CENTCOM نے کہا کہ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ "وسطی شام میں تشکیل نو کے لیے موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔"
اور پیر کے روز، CENTCOM نے کہا کہ امریکی افواج نے اس گروپ کے 12 عسکریت پسندوں کو حملوں میں ہلاک کر دیا جس کے مطابق یہ حملے "سابق حکومت اور روس کے زیر کنٹرول علاقوں میں کیے گئے تھے۔"
تازہ ترین حملے کا اعلان ایک دن بعد ہوا جب امریکہ نے کہا کہ اس نے اس سال شام میں داعش کے خلاف لڑائی کے حصے کے طور پر اپنے فوجیوں کی تعداد کو دوگنا کر دیا ہے۔
ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی نے سینٹ کوم کے اس دعوے کے متعلق اطلاع دیتے ہوئے اپنی طرف سے یہ بھی شامل کیا کہ "واشنگٹن اس ماہ کے شروع میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شدت پسند گروپ کے خلاف فوجی کارروائی میں تیزی لایا ہے، اور ان علاقوں کو نشانہ بنایا جو شام اور روس کے فضائی دفاع سے محفوظ تھے۔
ابویوسف کو مشرقی صوبہ دیر الزور میں مارنے کی اطلاع یو ایس سینٹ کوم کے سوشل پلیٹ فارم ایکس کے اکاؤنٹ سے دی گئی۔ امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے ابو یوسف اور اس کے ساتھی کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
" سینٹ کوم کی پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ حملہ "ایک ایسے علاقے میں کیا گیا جو پہلے شامی حکومت اور روسیوں کے زیر کنٹرول تھا۔"
امریکہ نے کئی سالوں سے داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کو روکنے کے لیے وقتاً فوقتاً حملے اور چھاپے مارے ہیں۔ لیکن الاسد کے زوال کے بعد سے درجنوں حملے کر چکے ہیں۔
ابو یوسف کون ہے
داعش کے پراسرار کمانڈر "ابویوسف" کا نام ابو یوسف نہیں۔ اس شخص کے بارے میں عرصہ تک غیر مصدقہ متنازعہ کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں تاہم 12 اگست 2014 کو واشنگٹن پوسٹ نے ایک انٹرویو شائع کیا جو واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ترکی میں سڑک پر چلتی ایک کار مین کیا گیا تھا۔ اس انٹرویو سے واشنگٹن پوسٹ نے دنیا پر منکشف کیا کہ ابو یوسف ایک یورپی نوجوان ہے جو بعد میں مسلمان ہوا اور داعش میں شامل ہوا۔ اس کی عمر 2024 مین تقریباً 37 سال تھی اور جس وقت یہ آرٹیکل شائع ہوا وہ 27 سال کا تھا۔ اس یورپی نو مسلم کا اصل نام کچھ اور تھا البتہ دنیا نے اسے ابو یوسف کے نام سے جانا کیونکہ داعش میں اسے یہی نام دیا گیا تھا۔
ابو یوسف کو داعش میں ایک اعلیٰ سطح کا سیکیورٹی کمانڈر قرار دیا جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ سے انٹرویو مین اس نے بتایا تھا کہ وہ 2013 میں داعش میں شامل ہوا۔
اب تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ابو یوسف کی نقاب کے پیچھے رہنے والا یہ شخص کس یورپی ملک میں پیدا ہوا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آیا ابو یوسف ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا یا اس نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اسلام قبول کیا تھا۔
2013 میں،ابو یوسف شام کا سفر کر کے اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہوا اور تقریباً ایک سال کے اندر، اسے اسلامک اسٹیٹ کا "اعلی سطحی سیکورٹی کمانڈر" سمجھا جانے لگا۔
2024 تک، اس کی حیثیت نامعلوم ہ تھی۔ اب اچانک سینٹ کوم نے یاد دلایا کہ ابو یوسف اب تک زندہ تھا اور اسے جمعرات کے روز امریکی ائیر سٹرائیک مین مار دیا گیا۔
"داعش کو ختم کرنے کے لئے" شام میں امریکہ فورس دوگنا کر دی گئی
امریکہ کے حکام برسوں سے یہ بتا رہے تھے کہ داعش کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر امریکہ کے شام میں تقریباً 900 فوجی اہلکار موجود ہیں، داعش کے متعلق تصور کیا جاتا ہے کہ یہ عراق میں امریکی فوجی قبضہ کے دوران بنی تھی اور اس نے عراق سے شام میں بھی پھیل گئی تھی۔ بعد میں امریکی قیادت میں مقامی فورسز کے ہاتھوں شکست کھانے سے داعش نے عراق اور شام میں بڑے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ داعش کے خلاف امریکی اور اس کے ساتھ روسی بھی فوجی کارروائیاں کرتے رہے جن میں سے اہم نقصانات امریکی ٹارگٹڈ کارروائیوں کے نتیجہ میں سامنے آئے .
اب جب کہ شام میں عملاً غیر داعشی عناصر کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور بشار الاسد کی ریجیم زمیں بوس ہو چکی ہے، پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائڈر نے صحافیوں کو بتایا، اب شام میں "تقریباً 2,000 امریکی فوجی" موجود ہیں اور یہ کم از کم چند مہینوں سے موجود ہیں۔