ویب ڈیسک: رواں برس خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں دہشت گردی میں ناصرف 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں بلکہ نہ ختم ہونے والے خوف کے باعث کُرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار جانے والی سڑکیں بند ہیں، علاقے میں ادویات، خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے۔ جمعرات کے روز پنجاب کی صوبائی کابینہ نے پاڑہ چنار میں عوام کی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے وہاں ادویات اور ضروری امدادی سامان وافر مقدار میں بھیجنے کی منظوری دی۔
اسی صورتحال کی وجہ سے رواں ہفتے پاڑہ چنار جانے کے لیے نجی ادارے کی ٹیم کو فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایئر ایمبولینس کا سہارا لینا پڑا۔ زمینی راستے دہشت گردوں کے چھپ کر اچانک حملے کے خوف سے منقطع ہونے کے باعث ایدھی فاؤنڈیشن نے ایئر ایمبولینس کے ذریعے جان بچانے والی ادویات علاقے میں پہنچائی ہیں۔
چنار کے درختوں اور سفید برف پوش پہاڑوں میں گھرے پاڑہ چنار کی خوبصورتی اب بھی ہمیشہ جیسی ہے لیکن دہشتگردوں کا بار بار نشانہ بننے اور زخمی روحوں کی بڑھتی تعداد نے شہر پر اداسی کا نادیدہ غلاف سا تان ڈالا ہے۔
یہاں نظر آنے والے مناظر اور مقامی افراد سے بات چیت یہ باور کروانے کے لیے کافی تھے کہ یہاں کی آبادی کو نہ صرف سکیورٹی خدشات لاحق ہیں بلکہ انھیں ادویات، کھانے پینے کی اشیا اور انتہائی بنیادی اشیائے ضروریہ کے حصول میں بھی انتہائی دشواریوں کا سامنا ہے۔
یہاں کے مرکزی بازار میں ایک شخص بچوں کا فیڈر اٹھائے دُکانوں پر گھوم رہا تھا تاکہ اس پر لگانے کے لئے بوتل کے سائز کے مطابق ے نیا نپل خرید سکے مگر روزمرہ استعمال کی اشیا کی رسد تقریباً بند ہونے سے پیدا ہونے والی قلت اور عدم دستیابی کے باعث اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔
دو ماہ قبل مسافروں کی گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر بگن میں ہونے والے ایک حملے میں شاہ ولایت بھی شدید زخمی ہوئے تھے اور وہ مقامی ہسپتال میں اب بھی زیر علاج ہیں۔ انھوں نے اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ’یہاں ڈاکٹر تو ہیں لیکن دوائیاں نہیں ہیں۔‘
ضلع کُرم میں دہشت گردی کی نئی لہر اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب ضروری سفر کیلئے گھروں سے نکلنے والوں کے ایک قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد ایک حملہ مسافروں کے اس سے قدرے بڑے گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
ان دہشتگرد حملوں کے بعد متعدد علاقوں میں دہشتگردوں نے دوکانوں اور گھروں پر حملے کئے جن میں کئی افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پرانی دشمنی میں الجھے قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ دو مہینوں سے بند ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال پاڑہ چنار کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جاں نے ایک میڈیا آؤٹ لیت کو بتایا کہ سڑک کی بندش کی سبب ادویات اور دیگر اشیا نہ پہنچنے کے نتیجہ میں گذشتہ دو ماہ میں 29 بچوں کی اموات ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر میر حسن نے کہا، ’جب سڑک بند ہو جاتی ہے تو بہت سے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہماری سپلائی لائن کٹ جاتی ہے خاص طور پر ادویات کی اور اس کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی بھی۔‘
'سب سے بڑا مسئلہ ان مریضوں کو ہوتا ہے جو سیریس ہوتے ہیں اور جنھیں بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
اجمل اس ہسپتال سے تقریباً 62 کلومیٹر دور رہتے ہیں اور انھیں ہسپتال پہنچنے کے لیے طویل کچے راستے کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اجمل گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹروں نے ان کے گُردوں کا معائنہ کیا اور انھیں ادویات بھی تجویز کیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹروں نے میرے ٹیسٹ کیے اور دوائیاں لکھ کر دیں، دوائیوں کے پیچھے میں چار، پانچ گھنٹے بھاگا اور ابھی بھی کچھ دوائیں مجھے نہیں ملیں۔‘
اسی طرح کا شکوہ پاڑہ چنار کی ان خاتون کا بھی ہے جن کے دونوں گُردے ناکارہ ہیں لیکن ان کے علاج کے لیے ادویات یہاں نہیں پہنچ پا رہیں اور نہ ہی انھیں پشاور منتقل کیا جا سکتا ہے۔
پاڑہ چنار حالانکہ بڑٓ شہر ہے لیکن یہاں واقع میڈیکل سٹورز خالہ خالی نظر آتے ہیں۔ علاقہ مین پاڑہ چنار سے کہیں زیادہ چھوٹے اور نسبتاً دشوار گزار علاقں مین دواؤں اور روزمرہ ضروری کی اشیا کی موجودگی کا حال پارہ چنار سے بھی بد تر ہے۔
ادویات کی ہول سیل کے بزنس سے وابستہ ایک تاجر نے اس صورتحال کی وضاحت یوں کی،’اگر ہول سیلر ہوتے ہوئے میری دُکان خالی ہے تو سوچیں عام میڈیکل سٹورز کی کیا حالت ہو گی؟‘
’یہاں اینٹی بائیوٹکس نہیں ہیں، زندگی بچانے والی ادویات نہیں ہیں، انسولین بالکل نہیں مل رہی۔ بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں بھی ناپید ہیں۔‘
پاڑہ چنار کے خالی بازار
ایدھی فاؤنڈیشن یہاں ایئر ایمولینس کے ذریعے ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ادارہ کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق یہ ایک ’عارضی حل‘ ہے۔
فیصل ایدھی نے ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو بتایا، ’ہم تو یہاں زندگی بچانے والی ادویات اور ویکسین لے کر آئے تھے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں تو پیناڈول کی گولی تک دستیاب نہیں۔‘
بازار خالی پڑے ہیں، میڈیکل سٹورز کی خالی ریکیں قلت کی الم ناک کہانی بتا رہی ہیں لیکن خیبر پختونخوا کی حکومت بضد ہے کہ وہ تو کُرم میں ادویات پہنچا رہے ہیں۔
جمعہ کو مشیرِ صحت احتشام علی نے ایک بیان میں کہا کہ ’آج کلیئرنس اور دیگر قانونی کارروائی کے بعد ادویات کی بڑے کھیپ کو ہیلی کاپٹر میں لوڈ کیا جائے گا اور ہفتے کو انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے کُرم پہنچایا جائے گا۔‘
ایک ہیلی کاپٹر میں کتنا سامان جا سکتا ہے اور یہ سامان شہر میں دوا کو ترستے مریضوں کی کتنے گھنٹے تک ضرورت پوری کر سکتا ہے، یہ ریاضیاتی مشق پیچیدہ نہیں البتہ دردناک بہت ہے۔
عام حالات میں پاڑہ چنار کے بازار میں خاصی رونق ہوا کرتی ہے لیکن جب بازار ہی بنیادی اشیائے ضروریہ سے خالی ہوں تو لوگ وہاں آ کر کیا کریں گے۔
یہاں ہم نے ایک پیٹرول پمپ بھی دیکھا جو کہ پیٹرول نہ ہونے کے سبب بند تھا اور اس کی بندش کے باعث پورے علاقے میں شہریوں کو نہ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی معطل ہے بلکہ اس سے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
پاڑہ چنار کی گلیوں مین سرسری سا گھومنے سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہاں ایل پی جی گیس اور ایندھن کی لکڑی بھی ناپید ہیں۔ کھانا بنانے کے لئے ہی ایندھن مل جائے تو لوگ اسے خوش قسمتی مانتے ہیں، سردی مین گھر کو گرم رکھنے کا انتظام تو اب قصہِ پارینہ ہے جسے یاد کر کے پاڑہ چنار کے مکین محض آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔
پاڑہ چنار میں مرغی کا گوشت اور انڈے بھی دستیاب نہیں کیونکہ تمام شہروں کی طرح یہاں بھی مرغی اور انڈے بڑے پولٹری فارمز سے آتے ہیں جو نسبتاِ کم سرد علاقوں میں ہیں۔ دُکانداروں کے پاس فروخت کرنے کے لیے صرف وہی سبزیاں موجود ہیں جو علاقے میں اُگائی جاتی ہیں۔
بازار میں ایک دُکاندار نے کسی نجی ٹی وی کو بتایا کہ یہاں ’چنا، ماش کی دال، مسور کی دال سب ختم ہو چکی ہیں اور چینی اور گھی بھی نہیں ہے۔‘
بازار میں بچوں کے لئے خشک دودھ اور سیری لیک تک دستیاب نہیں ہیں۔
پاڑہ چنار کے آس پاس سبھی علاقے سڑک کی بندش سے متاثر ہیں کیونکہ وہ بھی اشیائے خورد و نوش خریدنے کے لیے پاڑہ چنار کے بازاروں کا ہی رُخ کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت ضلع کُرم میں دہشتگردی کا ایک ذمہ دار پڑوسی ملک افغانستان کو قراد دیتی ہے جہاں سے سرحد عبور کر کے دہشتگرد اس علاقہ میں آتے ہیں اور جب ان کا پیچھا کیا جاتا ہے تو وہ سرحد پار کر کے دوبارہ "محفوظ جنت" میں چلے جاتے ہیں ۔
کرّم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملوں اور پھر قبائلی لشکر کی جانب سے متعدد مقامات پر لشکر کشی اور آتشزنی کے واقعات کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ 'یہ جھگڑا پاڑہ چنار س میں باہر سے آ رہا ہے، جس کی افغانستان سے باقاعدہ پشت پناہی ہو رہی ہے اور طالبان (خارجی) سرحد پار کر رہے ہیں۔'
پاڑہ چنار افغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تو تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے لیکن ڈیورنڈ لائن کے تقریباً اوپر واقع ہے اور جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے لوگوں نے کُرم میں بھی نقل مکانی کی تھی۔ جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سنہ 2000 کے وسط میں خٓرجی دہشتگردوں کی تنظیم ٹی ٹی پی بنی تو ان علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کی وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی پراسرار عدم توجہ کے باوجود سکیورٹی صورتحال کو بہتر اور پاڑہ چنار جانے والی سڑک کو کھلوانے کی کوشش تو کر رہی ہیں لیکن اب تک انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
آج جمعہ کے روز پشاور میں ضلع کُرم میں جاری بحران اور دہشتگردی کو کچلنے کے لئے ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر داخلہ اور پشاور کے کور کمانڈر بھی بیٹھے۔ اس اجلاس میں فورسز اور وفاقی حکوت نے مل کر طے کیا کہ کرم میں امن بحال کرنا ریاست کی رِٹ کا سوال ہے۔ اس علاقے مین بنائے گئے تمام بھاری بنکر توڑے جائیں گے اور دہشتگردوں کی پناہ گاہیں اور کمیں گاہیں، جہاں کہیں بھی ہوں گی، ان تک پہنچ کر انہیں ختم کیا جائے گا۔
بدقسمتی سے کرم میں بہتری کے اقدامات کے لئے وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کی جو معاونت درکار ہے وہ عموماً نہیں ملتی، ایپکس کمیٹی کے اس اہم اجلاس مین وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور موجود تو تھے لیکن ان کی طرف سے کوئی انی شئیٹِو میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوا، اس کے برعکس وفاقی وزیر داخلہ نے ہی آج بھی تعاون کی پیشکش کو دہرایا۔
پختونخوا کی حکومت سے زیادہ لاہور میں پنجاب کی حکومت میں کرم کی سورتحال اور عوام کے مصائب کے متعلق تشویش پائی جاتی ہے جس کا اظہار کل جمعرات کے روز پاڑی چنار میں دوائیں اور امدادی سامان کی وافر مقدار بھیجنے کے صوبائی کابینہ کے فیصلہ سے ہوا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایدھی فائنڈیشن سے لے کر پنجاب حکومت تک صرف امدادی سامان کی معمولی مقداریں ہی ہیلی کاپتروں کے زریعہ پاڑہ چنار اور چند دیگر قابل رسائی قصبوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اپنے صوبہ میں سڑکوں کو عوام کے لئے محفوظ بنانا پختونخوا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، اس ضمن میں کوئی متبادل دستیاب نہیں۔