پانی سے بجلی بنانے گاڑی چلانے کا تجربہ کامیاب ، پاکستان زندہ باد
تحریر، عامر رضا خان:پاکستان میں ہائیڈروجن گیس کے وسیع زخائر موجود ہیں یقین نہیں آرہا نا لیکن یہ مستقبل کی توانائی کے مسائل کا دیرپا اور شائد ختمی حل ہے دنیا کے بہت سے ممالک اس ٹیکنالوجی پر چلے گئے ہیں جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے جو اپنے نئے شہر نیوم کو اسی پر چلائے گا لیکن اس کی تفصیل سطور زیریں میں آئے گی پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ ہائیڈروجن پاور ہے کیا ؟ اور اسے کہاں کہاں استعمال کیا جارہا ہے ۔
ہم سب کو علم ہے کہ پانی دو گیسز ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے ان دو میں سے ایک عنصر ہائیڈروجن کو توانائی کے طور پر استعمال کرنے کے متعدد طریقے ہیں اور یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک مؤثر حل ثابت ہو سکتا ہے۔ ہائیڈروجن کو فیول سیلز میں استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں یہ بجلی، اور حرارت پیدا کرتا ہے، اور یہ گاڑیوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں توانائی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن کو پاور پلانٹس میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ بجلی پیدا کی جا سکے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کا ذخیرہ ممکن نہ ہو۔ ہائیڈروجن کو صنعتی عمل میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جیسے سٹیل اور سیمنٹ کی صنعتوں میں زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ہائیڈروجن اس عمل کو زیادہ صاف ستھرا بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن کو توانائی کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ اضافی شمسی یا ہوا کی توانائی کو محفوظ کیا جا سکے اور ضرورت پڑنے پر اس سے توانائی حاصل کی جا سکے۔
دنیا بھر میں مختلف ممالک ہائیڈروجن کے استعمال میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ جاپان میں ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں اور ہائیڈروجن پر مبنی پاور پلانٹس استعمال ہو رہے ہیں، اور وہاں ہائیڈروجن کی پیداوار اور استعمال کا بڑا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ یورپ میں جرمنی، فرانس اور نیدرلینڈز جیسے ممالک ہائیڈروجن کو ٹرانسپورٹ اور صنعتی عمل میں بڑی تیزی سے اپناتے جا رہے ہیں، جہاں جرمنی نے "ہائیڈروجن ٹرین" کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ امریکہ میں کیلیفورنیا میں ہائیڈروجن فیولنگ اسٹیشنز کا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے اور فیول سیل گاڑیاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ چین میں بھی ہائیڈروجن بسیں اور گاڑیاں متعارف کرائی جا رہی ہیں، اور وہاں کے صنعتی شعبے میں بھی ہائیڈروجن کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ آسٹریلیا گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور برآمد کے لیے دنیا کا ایک اہم مرکز بننے کی کوشش کر رہا ہے، اور سعودی عرب نے "نیوم" منصوبہ شروع کیا ہے، جو گرین ہائیڈروجن پیدا کرنے کے لیے شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال کرے گا۔
مستقبل میں ہائیڈروجن توانائی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے جو فوسل فیولز پر انحصار کم کرے گا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دے گا۔ یہ توانائی کا ایک صاف، پائیدار اور قابلِ تجدید ذریعہ ہے، اور دنیا بھر کے ممالک اس کی ترقی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ توانائی کے بحران سے نمٹا جا سکے اور گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کو عالمی سطح پر بڑھایا جا سکے۔
پاکستان میں ہائیڈروجن کو مستقبل کے توانائی کے ذرائع کے طور پر استعمال کرنے کی بڑی صلاحیت موجود ہے، حالانکہ قدرتی طور پر زمین پر ہائیڈروجن کے ذخائر نہیں پائے جاتے۔ ہائیڈروجن مختلف ذرائع سے پیدا کی جا سکتی ہے، جن میں پانی سے الیکٹرولائسز، قدرتی گیس سے ہائیڈروجن کی پیداوار، بایومیس، اور کوئلے سے گیسفیکیشن شامل ہیں۔ پاکستان میں وافر مقدار میں پانی، قدرتی گیس، زرعی ویسٹ، اور کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، جو ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ شمسی اور ہوا کی توانائی بھی ہائیڈروجن کی ماحول دوست پیداوار میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس شعبے میں ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری، اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی ضروری ہے۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ اس پر توجہ دے، تو ہائیڈروجن انرجی پاکستان کے توانائی بحران پر قابو پانے اور برآمدات بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے
موجودہ حالات میں ہائیڈروجن فوسل فیولز کے مقابلے میں مہنگا ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ قابلِ تجدید توانائی سے پیدا کیا جائے۔ گرین ہائیڈروجن، جو شمسی یا ہوا سے پیدا کی جاتی ہے، ابھی تک زیادہ مہنگی پڑتی ہے کیونکہ اس کی پیداوار کے لیے الیکٹرولائزس کے عمل میں توانائی کی قیمتیں نسبتا زیادہ ہیں۔ اس کے برعکس، گری ہائیڈروجن جو قدرتی گیس سے حاصل کی جاتی ہے، کم لاگت پر تیار ہوتی ہے، مگر اس عمل میں ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بلیو ہائیڈروجن میں قدرتی گیس سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو گرفت کرنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے، جس سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ فوسل فیولز کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہیں، اور جب تک قدرتی گیس اور تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں، ہائیڈروجن فوسل فیولز کے مقابلے میں مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے قابلِ تجدید توانائی کی قیمتیں کم ہوں گی اور ہائیڈروجن کی پیداوار کے طریقے مزید بہتر ہوں گے، ہائیڈروجن سستا اور زیادہ پائیدار توانائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر