سٹی42: اندرون سندھ کے قصبہ رانی پور میں اسد شاہ کی حویلی میں کمسن ملازمہ فاطمہ کی تشدد سے وفات کے کیس کی تحقیقات کے دوران حویل میں کئی مزید مظلوم بچیوں کے عملاً قید ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ اسد شاہ کی حویلی میں مزید کئی بچیاں گھریلو کام کام کرنے والی ملازماوں کی حیثیت سےمحصور ہیں اور باہر نکلنا چاہتی ہیں۔ ایس ایس پی روحیل کھوسو نے صحافیوں کو بتایا کہ حویلی میں قید تمام تمام بچیوں کو نکال کر ان کےگھروں تک بھیجیں گے۔
رانی پور کے پیر کی حویلی میں ریپ اور تشدد کا نشانہ بن کر فوت ہو جانے والی 10 سالہ بچی کی والدہ نے ابتدا میں بچی کی لاش خاموشی کے ساتھ جنازہ پڑھ کر دفنا دینے اور اس کی موت کو بیماری کا نتیجہ قرار دینے کی یہ ہول ناک وجہ بتائی تھی کہ ان کی ایک بچی تو فوت ہو گئی اور دو مزید بچیاں اب بھی پیر اس کی حویلی میں قید ہیں۔
متوفی بچی فاطمہ کی والدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک بیٹی کی ہلاکت کے بعد باقی دو بیٹیوں کی جان بچانے کیلئے اس نے طبعی موت کا بیان دیا۔
بعد ازاں رانی پور کی حویلی میں کام کرنے والی ایک ملازمہ لڑکی اجالا کا ویڈیو بیان سامنے آ چکا ہے، جس میں اس نے پیر اسد شاہ کی بیوی پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا۔
اس نوجوان ملازمہ نے بتایا کہ اسد شاہ کی بیوی حنا شاہ اس پر تشدد کرتی تھی۔ سزا کے طور پر گرم پانی پینے کیلئے دیتی تھی۔ وہ کچھ عرصہ قبل حویلی سے نکل بھاگی تھی۔
اپنے ویڈیو بیان میں ملازمہ نے کہا کہ وہ 4 ہزار روپےکے عوض حویلی کا سارا کام کرتی تھی، اسد شاہ کی اہلیہ بلا وجہ سخت تشدد کا نشانہ بناتی تھیں، ساری رات جگایا جاتا تھا۔ ملازمہ اجالا نے بتایا کہ وہ خودکشی کا فیصلہ کر چکی تھی، کچھ عرصہ قبل حویلی سے بھاگ آئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں رانی پورمیں پیر کی حویلی میں کام کرنے والی 10 سالہ بچی تشدد سے جاں بحق ہوگئی تھی۔
میڈیکل بورڈ نے فاطمہ پر جسمانی تشدد کی تصدیق کی ہے اور بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کا خدشہ ظاہر کیا۔
ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے بتایا کہ حویلی سے تمام بچیوں اور بچوں کو فوری طور پر ریسکیو کر کے ان کے گھروں کو بھجوانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں جبکہ حویلی میں پولیس کیمپ قائم کر کے تمام مردوں کے ڈی این اے سیمپل لیے جائیں گے۔
واقعے میں گرفتار ملزم اسد شاہ کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے جبکہ نامزد ملزم کی اہلیہ حنا شاہ کو سندھ ہائی کورٹ سے 7 روز کی حفاظتی ضمانت مل گئی ہے۔ جبکہ طویل عرصہ سے جاری تشدد کی اس کیس میں غفلت برتنے پر ایس ایچ او رانی پور امیر چانگ، ہیڈ محرر محمد خان، ڈاکٹر فتح میمن اور ڈسپنسر امتیاز بھی پولیس تحویل میں ہیں، چاروں افراد کی نااہلی کے باعث بچی کو پوسٹ مارٹم کئے بغیردفنا دیا گیا تھا۔ اب پولیس کے سینئیر افسروں کی ہدایت پر ان ملزموں کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لئے عدالت سے رجوع کیا جا رہا ہے۔