سٹی42: اندرون سندھ کی تاریخ مین پہلی مرتبہ ایک مفلوک الحال گھرانے کی کمسن ملازمہ بچی کا ریپ اور قتل طاقتور وڈیروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا سبب بن گیا۔ رانی پور کے پیر اسد شاہ کے گھر میں کمسن بچی فاطمہ کی وفات کے معاملہ میں بچی کی قبر کشائی کے بعد پوسٹمارٹم سے انکشاف ہوا کہ جسمانی تشدد کے ساتھ بچی کو ریپ کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔
رانی پور میں کمسن ملازمہ کی ہلاکت کے کیس میں نیا موڑ آنے کے بعد پولیس کی بھاری نفری پیر اسد شاہ کی حویلی کے باہر تعینات کردی گئی۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس روحیل کھوسو کنے تصدیق کی ہے کہ ڈی این اے کیلئے حویلی کے 4 ملازموں کے خون کے نمونے لے لیے ہیں۔ حویلی میں مالکان، نوکروں اور گھر میں آنے جانے والے دیگر مردوں کی لسٹ تیار کرلی گئی ہے اور سب کے ڈی این اے کرائے جائیں گے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھاکہ پولیس کو تفتیش کے دوران کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ بچی پر تشدد کے مقدمہ میں مرکزی ملزم اسد شاہ پولیس کی تحویل میں ہے اور اس بچی کی وفات سے پہلے اس کا مبینہ علاج کرنے والے ڈاکٹر کو بھی ْگرفتار کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ملزم اسد شاہ کی بیوی نے حفاظتی ضمانت کروا لی ہے۔
ڈی آئی جی سکھر ن جاوید جسکانی نے بتایا ہے کہ تفتیش میں ایس ایچ او ھیڈ محرر ڈاکٹر اور کمپوئانڈر کا ریمانڈ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حقائق چھپانے اور بنا پوسٹ مارٹم کے لاش دفنانے پر ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا جائے گا ۔