وسیم عظمت: برسات کے آخری ہفتہ میں لاہوریوں پر قدرت مہربان ہو گئی، آج شام لاہور کے افق پر قوسِ قزح نمودار ہو گئی۔
جمعرات کے روز لاہور کی فضا میں بادل بھی موجود رہے اور دھوپ بھی چمکتی رہی، شام کے وقت جب سورج نے مغربی افق پر بادلوں کی اوٹ سے لاہور کو گرماتے ہوئے نیچے جانا شروع کیا تو سورج کے مخالف سمت میں اچانک قوسَ قزح افق پر نمودار ہو گئی۔ اس خوبصورت رینبو کو بہت سے لہوریوں نے دیکھا اور اس کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کے ساتھ قوسِ قزح کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔
پاکستان بھر کی طرح لاہور میں بھی حالیہ مون سون کے دوران بادل گزشتہ کئی سالوں کی نسبت بہت زیادہ مہربان رہے، صبح، دوپہر، شام ، دن کے تقریباً ہر وقت کے دوران بارشیں ہوتی رہیں لیکن قوسِ قزح اتفاق سے ایک بار بھی نہیں بنی۔
آج جمعرات کی شام جب سیاہ، سرمئی اور آسمانی رنگوں کے مست بادلوں نے آسمان پر خوبصورت سکائی سکیپ ترتیب دے رکھا تھا، اچانک آسمان پر قوسِ قزح بھی دکھائی دینے لگی۔ قوسِ قزح نامکمل قوس کی شکل میں تھی جس کے نچلے سرے میں تمام سات رنگ نمایاں دکھائی دے رہے تھے اور چوتھائی دائرہ تک پہنچتے پہنچتے رنگ مدھم ہوتے چلے گئے تھے، یہ قوسِ قزح چوتھائی دائرہ سے کچھ زیادہ تھی اور کافی دیر تک افق پر موجود رہی۔ لاہور کے کئی علاقوں میں شہریوں نے گھروں اور عمارات کی چھتوں سے اور کھلی جگہوں سے اس سحر انگیز فنامنا کا نظارہ کیا۔
قوسِ قزح کیسے بنتی ہے
قوس قزح جسے اردو میں دھنک بھی کہتے ہیں، فطرت کا خوبصورت ترین مظہر ہے۔ عموماً بارش کے بعد جب سورج سر کے اوپر نہ ہو بلکہ طلوع یا غروب ہونے کی پوزیشن کے قریب ہو تو سورج کی شعائیں فضا میں موجود پانی کے قطروں سے ٹکرا پر اپنی روشنی کے تمام رنگوں کو الگ الگ کر لیتی ہیں۔ دور فضا میں ہونے والے اس فنامنا کو زمین پر دیکھنے والوں کو آسمان پر رنگوں سے بھری ایک کمان یا نصف کمان دکھائی دیتی ہے جس میں سات رنگ تک ہو سکتے ہیں۔ فضا میں افق پر یا کہین بھی دکھائی دینے والی ست رنگی کمان کو دھنک، قوسِ قزح یا رینبو کہتے ہیں۔
دھنک کے سات رنگوں میں سرخ، مالٹائی، پیلا، سبز، نیلا، جامنی اور گہرا نیلا نمایاں ہوتے ہیں۔
دھنک عموماً اس وقت نظر آتی ہے جب بارش کے قطرے فضا میں معلق ہوں اور سورج کی روشنی دیکھنے والے کے پیچھے سے ترچھے زاویئے سے آ رہی ہو۔ زیادہ خوبصورت دھنک اس وقت بنتی ہے جب آدھے آسمان پر بادل ہوں اور آدھا آسمان صاف ہو اور دیکھنے والے کے سر پر بھی آسمان صاف ہو۔
پانی کی آبشاروں اور فواروں کے گرد بارش کے بنا ہی دھنک بننے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ دھنک صرف قریبی علاقہ سے ہی دیکھی جا سکتی ہے جب کہ بارش کے فضا میں معلق قطروں کے سبب بننے والی دھنک بہت دور تک صاف دکھائی دیتی ہے۔
شعاع کا قطرے میں داخل ہونا، مڑنا، منعکس ہونا، پھر مڑنا اور سات رنگوں میں بٹنا
دھنک اس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی کی شعاع پانی کے ایک قطرے میں داخل ہوتی ہے یہ قطرہ مثلثی منشور کی طرح کام کرتا ہے۔ پانی کے قطرے میں داخل ہونے کے بعد یہ شعاع مڑتی ہے قطرے کے آخر میں پہنچ کر یہ شعاع منعکس ہوتی ہے اور واپس مڑتی ہے قطرے سے باہر نکلتے ہوئے یہ دوبارہ مڑتی ہے اور سات رنگوں ميں تبدیل ہوجاتی ہے۔
دھنک آسمان پر حقیقتاً موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک نظری مظہر ہے۔ جس کا مقام دیکھنے والے کی جگہ پر منحصر ہوتا ہے۔ تمام قطرے سورج کی شعاعوں کو موڑتے اور منعکس کرتے ہیں۔ لیکن چند قطروں کی روشنی ہی زمین پر موجود دیکھنے والے تک پہنچتی ہے۔