تاریخ پہ تاریخ ، تاریخ پہ تاریخ، جج صاحب ہم انصاف لینے جاتے ہیں (یہاں تحریک انصاف پڑھا جائے) تو ہمیں اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ عالم پناہ !زنجیر عدل کو جنبش دی ہے فیصلہ صادر فرمائیں ،یہ تھی عمران خان کے وکیل کی استدعا جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ سے فیصلہ آگیا تین صفحات پر مشتمل فیصلہ میاں گل حسن اورنگزیب نے تحریر کیا فیصلے کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق توشہ خانہ ٹو کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق 5 دن میں ضمانت پر فیصلہ کرنا لازم ہے ، سپیشل جج سینٹرل پالیسی مینڈیٹ کے مطابق ضمانت پر فیصلہ کر سکتے ہیں ، جس کے تحت آنے والے پانچ کام کے دنوں (یعنی ہفتہ اتوار نکال دیں ) میں ضمانت کا فیصلہ کرنا ہوگا،بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی درخواست ضمانت پر آئندہ سماعت تک فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔ جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں فیصلے کا امکان جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے جاری کیا ۔تین صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ جاری کیا گیا ،نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق مجسٹریٹ کے لیے 3 دن میں ضمانت کا فیصلہ کرنا لازم ہے، نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق سیشن کورٹ کو 5 ، اور ہائیکورٹ کے لئے 7 دن میں ضمانت کا فیصلہ کرنا لازم ہے، اس لیے خصوصی عدالت پر سیشن کورٹ والا دیا گیا وقت لاگو ہوگا، فیصلے میں یہ بھی تحریر ہے کہ اسپیشل کورٹ پر سیشن کورٹ کے لیے دیے گئے وقت کا اطلاق ہوگا ،درخواست گزار کے مطابق ان کی درخواست ضمانت بغیر وجہ التوا کا شکار ہے درخواست گزار وکلا نے ضمانت کی درخواستوں پر جلد فیصلہ کی ہدایت کرنے کی استدعا کی، ایف آئی اے نے موقف اختیار کیا قانون کے مطابق عدالت ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرے گی،ایف آئی اے کے پاس کیس ٹرانسفر ہونے کے بعد ضمانت کی درخواستیں اسپیشل جج سنٹرل کے پاس زیر التوا ہیں۔
اس خبر کے ملنے کے بعد تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے دوست نے کہا لیں جی اب آپ حساب لگالیں کہ زیادہ سے زیادہ 5 کام کرنے والے دن میں سپیشل کورٹ سے یہ فیصلہ ہوگا اور اس سے اگلے سات دن میں اسلام آباد ہائی کورٹ انصاف پر مبنی فیصلہ جاری کرئے گی ۔جو اگر ضمانت کا ہوا تو خان اکتوبر کے پہلے ہفتے اڈیالہ سے باہر ہوگا اور ان لوگوں کے خواب چکنا چور ہوجائے گا جو عمران خان کو سانحہ نو مئی میں سزا سنانا چاہتے ہیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں گل حسن اورنگزیب ایک اچھی ساکھ کے جج اور پاکستان میں پہلے مارشل لاء لگانے والے جنرل ایوب خان کے نواسے اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان کے کزن ہیں اور اپنی انصاف پسندی کے لیے معروف ہیں۔ اس سے قبل ان کے پاس ایک درخواست لائی گئی کہ بانی پی ٹی آئی کو دھمکی دی جارہی ہے کہ اُن کا کورٹ مارشل ہوگا جس کی فوری سماعت رکھ لی گئی اور سماعت میں جسٹس میاں گل حسن نے جو ریمارکس دئیے وہ کچھ یوں تھے، اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر نوٹس آسمانی بجلی کی طرح آنا ہے تو پھر ایسے نہیں ہو گا،نیب کے قانون کو سپریم کورٹ نے ڈریکونین قرار دیا لیکن اس میں بھی طریقہ کار موجود ہے طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے سول عدالت چارج فریم کریگی ،ٹرائل عدالت اگر کہے کہ کیس ملٹری کورٹ کو بھیجنا ہے تو پھر نوٹس دے کر بھیجا جا سکتا ہے۔
یوں عمران خان کے لیے سانحہ 9 مئی کیس میں اس حد تک تو اطمنان ہوا کہ جب تک ٹرائل کورٹ نہ کہے اور باقائدہ نوٹس جاری نہ کیا جائے اُس وقت تک اُن کے خلاف کسی بھی ملٹری کورٹ میں کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی ہے ، اور یہ بہت بڑا ریلیف ہے وقتی طور پر ملٹری ٹرائل کی لٹکتی تلوار بانی پی ٹی آئی سے کچھ دور ہوتی نظر آرہی ہے ۔
مخصوص نشتیں الیکشن کمیشن سے بڑی خبر ،ن لیگی ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا درخواست میں کہا گیا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے مخصوص سیٹوں کی فہرست نہیں دی وہ مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں، جن امیداروں نے انتخابات میں پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا انھیں ڈکلیئرڈ کیا جائے ،قرار دیا جائے جن آزاد ارکان نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی وہ دوبارہ پارٹی تبدیل نہیں کر سکتے،پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کردی ہے،پارلیمنٹ نے ترامیم کا اطلاق ماضی سے موثر قرار دیا ہے،ترامیم کے مطابق ایک مرتبہ وابستگی کا جمع سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ کے مطابق فہرست جمع نہ کرانے والی جماعت مخصوص نشتوں کی اہل نہیں الیکشن کمیشن میں درخواست ن لیگی ارکان صوبائی اسمبلی آمینہ حسن شیخ اور محسن ایوب نے دائر کی ہے اور یوں 8 ججز کی وضاحت کا جواب ن لیگی اراکین داخل کرادیا ہے ،میدان پھر لگے گا قانونی وار ہوں گے اور مخصوص نشستیں غیر محسوس طریقے سے مخصوص ہی رہیں گے ۔