نشتر پارک (شہباز علی) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک کا معاملہ خود مختار ایڈجیوڈیکٹر کے پاس جانے سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا۔
میچ فکسنگ اور پاکستان کرکٹ کا ساتھ 1979 سے ہے جب پہلی مرتبہ قومی ٹیم کے سابق کپتان آصف اقبال پر مشکوک سرگرمیوں کے الزامات لگے، فکسنگ کے معاملات میں تیزی 1994 میں آسٹریلیا کے دورہ پاکستان کے بعد اس وقت آئی جب آسٹریلوی کرکٹرز مارک واہ، شین وارن اور ٹممے نے پاکستانی کپتان سلیم ملک پر فکسنگ کی پیش کش کے الزامات لگائے۔
بعد ازاں تینوں آسٹریلوی کرکٹرز انکوائری کمیشن کے سامنے اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے، 1995ء میں پاکستان ٹیم جنوبی افریقا اور زمبابوے کے دورے پر تھی کہ اچانک باسط علی اور راشد لطیف نے ٹیم کے کپتان سمیت چند کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگاتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، اس مرتبہ بھی انکوائری میں کچھ ثابت نہ ہوا اور پھر تمام کھلاڑی ایک ساتھ کھیلتے دکھائی دئیے۔
1999ء ورلڈکپ فائنل میں پاکستان ٹیم کو شکست ہوئی تو ایک مرتبہ پھر فکسنگ کا شور اٹھا اس مرتبہ جسٹس قیوم کمیشن نے سابق کپتان سلیم ملک اور عطا الرحمن پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ وسیم اکرم سمیت کئی کرکٹرز پر جرمانے عائد کئے۔
جسٹس قیوم رپورٹ کے بعد سلیم ملک کے علاوہ تمام کھلاڑی کسی نہ کسی صورت کرکٹ سے وابستہ ہیں، تمام تر کوششوں کے باوجود سلیم ملک اب تک خود کو پی سی بی اور آئی سی سی سے کلیئر نہیں کراسکے۔
سلیم ملک نے بے پناہ کوششوں کے بعد پی سی بی قواعد و ضوابط کے مطابق ایڈجیوڈیکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے، سلیم ایڈجیوڈیکٹر سامنے آئی سی سی کے ٹرانسکرپٹ پر جواب دیں گے۔
سلیم ملک کہتے ہیں کہ ان کا اس ٹرانسکرپٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ پی سی بی کاموقف ہے کہ کلیئرنس کے لئے سلیم ملک کو اس ٹرانسکرپٹ کا جواب دینا ہوگا یا پھر اسے غلط ثابت کرنا ہوگا۔خود مختار ایڈجیوڈی کیٹر جسٹس (ر) فضل میراں چوہان 30 ستمبر سے کیس کی سماعت کریں گے۔