ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یوکرائن کا روس پر امریکی اٹیک ایمز میزائل سے حملہ، روس کی نئی ایٹمی ڈوکٹراین؛ دنیا نئی تشویش میں مبتلا

Ukraine Russia war, Russia's new doctrine , city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: یوکرائن نے روس کے ساتھ جنگ میں  امریکہ کے فراہم کئے ہوئے نسبتاً زیادہ رینج کے میزائل استعمال کر کے  اور  روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے روس کی نئی جوہری ڈاکٹرائن کی منظوری دے کر دنیا کو ایک شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ روس کی نئی ایٹمی ڈوکٹرائن کے مطابق روس غیر ایٹمی ہتھیاروں سے کسی حملے کا جواب ایتمی ہتھیاروں سے دے سکتا ہے اور خود پر حملہ کرنے والے کسی غیر ایتمی ملک کو ہتھیار فراہم کرنے والے ایٹمی ملک کے ساتھ بھی خود کو حالتِ جنگ میں تصور کر سکتا ہے۔

صدر جو بائیڈن کی طرف سے امریکی میزائل کو روس کے اندر فائر کرنے کی اجازت ملنے کے ایک دن بعد یوکرین نے پہلی بار روس کے اندر گہرائی میں ایک ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے امریکہ کے  Atacms  میزائل سسٹم کا استعمال کیا ہے؎ 

یہ تصویر یوکرین کی فوج سے وابستہ ٹیلیگرام چینل کی جانب سے منگل، نومبر کو پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے بنائی گئی ہے۔ 19، 2024۔ چینل کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں ایک نامعلوم مقام سے امریکی فراہم کردہ ATACMS میزائلوں کو داغے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے یورین کو حال ہی میں فراہم کئے گئے لیکن آج پہلی مرتبہ استعمال کئے گئے میزائل سسٹم کو آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم، یا Atacms (تلفظ "اٹیک ایمز 'attack-ems") کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسے سرد جنگ کے دوران سوویت اہداف کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کیف انہیں پہلے ہی استعمال کر رہا ہے، لیکن صرف یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میںموجود روسی فوج کے اہداف پر۔

لاک ہیڈ مارٹن کے ذریعہ تیار کردہ یہ میزائل 190 میل (300 کلومیٹر) دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بیلسٹک میزائل زیادہ تر راکٹوں کے مقابلے فضا میں بہت اونچی پرواز کرتے ہیں اور وہ شدید رفتار سے زمین سے ٹکراتے ہوئے اینٹی میزائل ایئر ڈیفنس سے  ممکنہ طور پر زیادہ امکان ہوتا ہے کہ بچ سکتے ہیں۔

Atacms کو نسبتاً  لمبی رینج کے میزائل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں کروز یا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی رینج نہیں ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس  Atacms  میزائل کو روس کے اندر استعمال کر کے یوکرین کے فوجی روسی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے بعض ڈپوؤں، یوکرائن کے اندر گھسی ہوئی روسی فوج کی سپلائی لائنز اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جس سے یوکرائنی فوجیوں کو فرنٹ لائنز پر  روسی حملوں میں کچھ کمی ملے گی۔

یوکرین نے جو میزائل فائر کیا وہ روس کے "Bryansk ریجن میں فوجی ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے بھیجا گیا۔

سرگئی لاروف کا ردعمل

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے الزام عائد کیا کہ واشنگٹن تنازعہ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

لاروف نے کہا کہ  امریکیوں کے بغیر، ان ہائی ٹیک میزائلوں کا استعمال، جیسا کہ پوٹن نے کئی بار کہا ہے، ناممکن ہے۔" انہوں نے کہا کہ روس "اس سمجھ کے ساتھ  آگے بڑھے گا" کہ میزائلوں کو "امریکی فوجی ماہرین" چلا رہے ہیں۔

انہوں نے ریو ڈی ھنیرو میں جی 20 میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم اسے روس کے خلاف مغربی جنگ کے ایک نئے چہرے کے طور پر لیں گے اور ہم اس کے مطابق ردعمل ظاہر کریں گے۔"

اس سے پہلےمنگل کو، کریملن نے روس کی ایٹمی ڈوکٹرائن میں ترامیم کی منظوری دی، نئی شرائط طے کیں جن کے تحت روس اپنے ہتھیاروں کے استعمال پر غور کرے گا۔

ترمیم شدہ ڈوکٹرائن کہتی ہے کہ ایک غیر جوہری ریاست کی طرف سے حملہ، اگر اسے جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے، تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔

روس کی نئی جوہری ڈاکٹرائن کے تحت کسی ایٹمی ہتھیار نہ رکھنے والا ملک اگر کسی ایٹمی طاقت کی حمایت سے  روس پر حملہ کرے گا تو  اسے دونوں ممالک کا روس پر مشترکہ حملہ تصور کرے گا۔  روس یا اس کے اتحادی بیلا روس پر اگر روایتی ہتھیاروں سے بھی ایسا حملہ کیا گیا جو اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت  کے لیے کسی بڑے خطرے کا سبب بنا  تو اس صورت میں روس جوہری ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔

روس کی نئی جوہری ڈاکٹرائن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ روس کسی فوجی اتحاد یا بلاک کے رکن کی جانب سے روس پر جارحیت کو  اس فوجی اتحاد کی جارحیت تصور کرے گا۔

صدر پیوٹن کی آج منظور کردہ  نئی ڈاکٹرائن کے تحت روس پر کسی بڑے فضائی حملے کی صورت میں روس ایٹمی ہتھیاروں سے اس کا جواب دے سکتا ہے۔ 

روس کی یہ نئی ڈوکٹرائن ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو امریکا کے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے روس کے اندر حملے کی اجازت دی ہے۔ امریکہ یہ میزائل پہلے ہی یوکرائن کو ڈیلیور کر چکا تھا لیکن اسے ان میزائلوں کو روس کے اندر حملے مین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ گزشتہ روز صدر جو بائیڈن نے یوکرائن کو ان میزائلوں کو روس کے اندر بھیجنے کی اجازت دے دی جس کے بعد صدر پیوٹن نے اپنی ایتمی ڈوکترائن ہی بدل ڈالی ہے۔ ابھی روس کی جانب سے یوکرائن یا اس کی مدد کرنے والے نیٹو فوجی اتحاد کے ممالک پر کسی ایتمی حملے کی براہ راست یا بالواسطہ الفاظ میں دھمکی نہیں دی گئی لیکن پیٹن کے نئی ایٹمی ڈوکٹرائن کی منظوری دینے کی دستاویز پر دستخط کرنے سے یہی مطلب اخذ کیا جا رہا ہے کہ یوکرائن کے میزائل حملے کے ردعمل مین کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

دراصل گزشتہ ستمبر کی 26 تاریخ کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایٹمی ہتھیاروں کے حملے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں میں شدید تشویش پھیل گئی تھی۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلی ویژن پر روسی عوام سے رسمی خطاب میں کہا تھا کہ اگر مغرب نے (یوکرائن کے)  تنازعہ پر اپنی جوہری بلیک میلنگ دکھائی تو ماسکو اپنے تمام وسیع ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا۔ اسے ان کی جانب سے یوکرائن پر ایٹمی ہتھیاروں کے حملے کی وارننگ سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اس کے کئی روز بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا تھا کہ

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے واضح کیا کہ اس دستاویز کی اشاعت کا وقت پہلے سے طے شدہ تھا اور پیوٹن نے رواں سال کے آغاز میں اس ڈاکٹرائن کو موجودہ صورتحال کے مطابق تبدیل کرنے کی ہدایت دی تھی۔