سٹی42: وفاقی وزارت داخلہ نے شرپسندی میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔پابندی والے علاقہ میں کسی بھی طرح کے احتجاج کے نام پر شر پسندی کرنے والوں کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور فون کی سم بلاک کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور انتباہ کے باوجود شر پسندی میں حصہ لینے والے سٹوڈنٹس کی تعلیمی اسناد منسوخ کروانے کے تلخ اقدام پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت سمیت دیگرشہروں میں افغان مہاجرین کے کیمپوں کی جیوفنسنگ شروع کردی گئی ہے۔
کسی بھی نام نہاد احتجاج میں شرپسندی کرنے والے طالب علموں کی تعلیمی اسناد اور ان کے تعلیمی اداروں میں داخلے منسوخ کرنے کے فیصلے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ احتجاج میں شامل شرپسند افرادکے پاسپورٹ، شناختی کارڈ منسوخ اور سم بلاک کرنے کا معاملہ بھی زیرغور ہے۔
وزارت داخلہ نے دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سکے پیش نظر عوامی مقامات کی نگرانی شروع کردی ہے اور سکیورٹی اداروں کو کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ی مکمل کرنے کی ہدایات کی ہے۔
جڑواں شہروں میں سکیورٹی کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی کافی تعداد کو سڑکوں پر موجود رکھا جائے گا۔
اسلام آباد پولیس نے 22 نومبر سے رینجرز اور ایف سی کے9 ہزار اہلکار مانگے ہیں۔ پولیس حکام کی درخواست پر اینٹی رائٹس کٹس بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے تحت 5 یا اس سے زائد افراد کے تمام عوامی اجتماعات، جلوسوں، ریلیوں اور مظاہروں پر پابندی ہے۔
تحریک انصاف کے بانی نے 24 نومبر کو "احتجاج کی فائنل کال" دی ہے اور ان کی پارٹی کے سینئیر رہنما تقریباً روزانہ اپنے عہدیداروں کو وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر وہ کافی تعداد مین بندے لے کر "احتجاج" میں شریک ہونے کے لئے اسلام آباد نہ آئے تو انہیں پی ٹی آئی کے عہدوں سے برطرف کر دیا جائے گا۔
احتجاج کی تیاریوں کے حوالے سے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بلوا کر ان سے قافلے لانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ آج اطلاعات کے مطابق علی امین گنڈاپور نے پی تی آئی کے ارکان اسمبلی کو قافلے لانے کے لئے نقد پیسے بھی تقسیم کئے ہیں۔