ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسرائیل کی عدالت نے نیتن یاہو کے دفتر سے دستاویزات کی لیک کے کیس کی رپورٹنگ پر پابندی اٹھا لی

 اسرائیل کی عدالت نے نیتن یاہو کے دفتر سے دستاویزات کی لیک کے کیس کی رپورٹنگ پر پابندی اٹھا لی
کیپشن: ایلی فیلڈسٹین، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے ایک ترجمان، جو اکتوبر 2024 کے آخر میں مبینہ طور پر غیر قانونی رسائی اور خفیہ خفیہ مواد کے لیک ہونے کی تحقیقات میں مرکزی ملزم ہیں۔ (کان اسکرین شاٹ، کاپی رائٹ قانون کی شق 27a کے مطابق استعمال کیا گیا ہے)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: اسرائیل کی ایک عدالت نے پرائم منسٹر آفس لیکس پر گیگ آرڈر اٹھا لیا ہے جس کے بعد اس سکینڈل کے متعلق اہم انشافات پبلک کے سامنے آ رہے ہیں۔ اب یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے ایک پرائیویٹ ترجمان اور ایڈوائزر ، سکینڈل کے کلیدی ملزم ہیں، اس کلیدی ملزم نے  اسرائیل کے اندر نافذ سنسر کو  بائی پاس کرنے کے لئے جرمن اخبار  'بلڈ زائیتونگ کو خفیہ معلومات دی ہیں؛ اس سرگرمی  کا مقصد یرغمالیوں کے معاہدے میں تاخیر  پر رائے عامہ کو  گمراہ کرنا تھا۔

اتوار کے روز ایک اسرائیلی جج نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے ایک اہلکار اور خفیہ خفیہ دستاویزات کو لیک کرنے اور غلط استعمال کرنے کا شبہ ایک فوجی افسر کے معاملے میں مزید تفصیلات کا انکشاف کیا۔

جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس لیک کا مقصد اسرائیلی رائے عامہ کو اس طرح متاثر کرنا تھا جس سے  نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ کو کم  کیا جاسکے۔ 

  ایک سال ڈیڑھ ماہ سے حماس کی قیمد مین موجود یرغمالیوں کے عزیز، دوست اور عام اسرائیلی مسلسل احتجاج کر کے وزیراعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ حماس کی قید سے یرغمالیوں کو چھرانے کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے ہین فوراً کریں۔ احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ اگر ان کے عزیزوں کی رہائی جنگ بندی سے ہی ممکن ہے تو جنگ بندی جلد کی جائے۔

لیکن نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی اور وہ خود جنگ بندی کی طرف جانے کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے خطرناک تصور کرتے ہوئے جنگ کو طور دے رہے ہیں۔ نیتن یاہو  کے غزہ جنگ کے پہلے دن سے وزیر دفاع یواو نے بھی ان پر  پبلکلی الزام لگایا تھا کہ وہ جنگ بندی کو اپنے سیاسی فائدہ کے لئے مؤخر کر رہے ہیں جس سے یواو گیلنٹ کے بقول اسرائیل کا نقصان ہو رہا تھا۔ نیتن یاہو نے دو ہفتے پہلے یواو گیلنٹ کو کسی واضح وجہ کے بغیر یہ کہتے ہوئے ڈسمس کر دیا کہ وہ ان کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اس کے بعد اب عدالت نے وزیراعظم  نیتن یاہو کے دفتر سے لیک ہونے والی معلومات کو جنگ بندی کے لئے احتجاج کرنے والے شہریوں کو دھوکا دینے کی کوشش کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔

گزشتہ روز پرائم منسٹر آفس سے لیک ہونےوالی فدستاویزات کے کیس کی سماعت میں اب تک گرفتار افراد کے حوالے سے ریاستی استغاثہ نے عدالت سے معاون، ایلیزر فیلدستین، اور فوجی افسر، جن کا عوامی طور پر نام نہیں لیا گیا، کی حراست میں توسیع کرنے کی درخواست کی۔ ان افراد کو گزشتہ ماہ کم از کم دو دیگر فوجیوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ ملزم ۔۔۔۔ کو خودکشی کی ممکنہ کوشش سے باز رکھنے کے لئے خصوصی سکیورٹی انتظامات کئے جائیں۔ 

نیتن یاہو کے دفتر سےدستاویزات کی لیک کے پیچھے کہانی کیا ہے
اسرائیلی حکام حالیہ ہفتوں کے دوران  نیتن یاہو کے دفتر میں کام کرنے والے اہلکاروں اور کئی فوجی افسروں کے بارے میں  کئی کئی حوالوں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر  کے اہلکاروں اور کئی فوجی افسران کو پرائم منسٹر آفس کی بعض دستاویزات کو لیک کرنے، اور   جنگ سے نمٹنے کے لیے نیتن یاہو کی اہلیت کو زیادہ ظاہر کرنے کی منظم کوشش کرنے کی غرض سے  ان کی بات چیت کے سرکاری ٹرانسکرپٹس میں ردوبدل کرکے اور ان ریکارڈوں تک رسائی کو کنٹرول کرنے والے لوگوں کو ڈرانے کے ذریعے  ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا سنگین الزام ہے۔

لیک کی گئی یا کروائی گئی انفرمیشن کا ایک حصہ  ستمبر میں شائع ہونے والے ایک مضمون  شائع کرنےکے لیے جرمن اخبار بِلڈ کو لیک کیا گیا تھا۔ اس انفرمیشن کو مینیپولیٹ کیا گیا تھا اور ہیرا پھیری کر کے ایک خاص تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جرمن اخبار میں شائع ہونےوالے اس آڑٹیکل میں حماس کی ایک دستاویز کا  بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں یرغمالیوں کے معاملے پر اسرائیل کے خلا ف حماس کی نفسیاتی جنگ کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔

ناقدین نے اسے پرائم منسٹر آفس کی طرف سے غلط معلومات پھیلانے  کی مہم کے ایک حصے کے طور پر دیکھا۔ اب تک عام تاثر یہ لیا جا رہا ہے کہ  نیتن یاہو یا ان کے حامیوں کے ذریعے خاص دستاویزات لیک کرنے کی اس سرگرمی کا مقصد  یرغمالیوں کی رہائی کے لیے عوامی دباؤ کو کم کرنا اور وزیر اعظم ک نیتن یاہو کی حماس وغیرہ کے ساتھ مذاکرات میں پوزیشن کے متعلق اسرائیلی رائے عامہ کو  گمراہ کرنا اور نیتن یاہو کے حق میں ہموار کرنا تھا۔

دو ہفتے قبل،اسرائیل کے، ریشون لیزیون مجسٹریٹ کی عدالت کے   اسی جج مناحم میزراہی نے،  اس سکینڈل کے ایک ملزم شناخت کے لیے ایک گیگ آرڈر کو جزوی طور پر ہٹا دیا تھا۔ فیلدستین نام کے اس  شہری   کی خدمات پچھلے سال نیتن یاہو کے  ترجمان کے طور پر کام کرنے کے لیے حاصل گئی تھیں۔اب اسے دستاویزات کی لیک کے  ایک مرکزی ملزم کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نیتن یاہو سے ان الزامات کے بارے میں اب تک پوچھ گچھ نہیں کی گئی ہے، اور ان کے دفتر نے معلومات لیک ہونے کی تردید کی ہے۔ گیگ آرڈر کی وجہ سے اس اہم کیس کی بہت سی تفصیلات مبہم ہیں۔

مزید تفصیلات سامنے آنے کے بعد نیا کیا ہے؟
اتوار کو گیگ آرڈر کے ایک اور جزوی لفٹنگ میں، جج نے تفصیل سے بتایا کہ دستاویز کیسے اور کیوں لیک ہوئی۔ انہوں نے لکھا کہ فوجی ذخائر میں ایک نان کمیشنڈ افسر نے اپنی ہی پہل پر کام کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر خفیہ مواد مسٹر کو منتقل کیا۔ اپریل میں سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے فیلدستین۔ مسٹر فیلدستین نے پہلے مقامی نیوز میڈیا میں معلومات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کے فوجی سنسروں نے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔

تحقیقات سے یہ سامنے آیا کہ نیتن یاہو کے ترجمان فیلدستین اور اس کے ایک اور ساتھی نے اس کے بعد بیرون ملک شائع ہونے والی دستاویز  کی مددسے جرمن اخبار مین لکھوائے گئے مضمون کو حاصل کرکے فوجی سنسر کو نظرانداز کیا، اور اسرائیلی نیوز میڈیا کو  الرٹ کیا کہ جرمن اخبار مین ایک مضمون آ رہا ہے،  انہیں مائل کیا کہ وہ اس خاص مضمون  کا حوالہ دیں گے۔  خود نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس سے نشر ہونے والے ریمارکس میں جرمن اخبار بلڈ کے اس  آرٹیکل کا بھی حوالہ دیا۔

اسرائیلی نامہ نگاروں نے جرمن اخبار بِلڈ کی رپورٹ کی بنیاد بننے والی دستاویز کی صداقت پر سوال اٹھانے کے بعد، نیتن یاہو کے ترجمان فیلدستین نے " ثبوت"حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے ایک نان کمیشنڈ افسر سے ملاقات کی، جس نے اسے دستاویز کی ایک فزیکل کاپی کے ساتھ ساتھ دو اضافی دستاویزات بھی دیں جنہیں ٹاپ سیکرٹ کے طور پر درجہ بندی کیا گیا تھا۔تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ ایک نان کمیشنڈ  افسر نے اس سال جون میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ترجمان فیلدستین کو ایک انتہائی کلاسیفائیڈ IDF انٹیلی جنس دستاویز کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا تھا۔

اس کیس میں افسر اور دیگر مشتبہ افراد کو عوامی طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

جج نے محرک کے بارے میں کیا کہا؟
اتوار کو اپنے فیصلے میں جج مناحم میزراہی نے لکھا کہ  فیلد اسیتن کے اقدامات کا مقصد "یرغمالیوں کے معاملے پر اور خاص طور پر حماس کی مضبوطی میں احتجاج کے تعاون کے معاملے پر جاری مذاکرات پر اسرائیل میں رائے عامہ کو متاثر کرنا تھا۔"

جج نے نوٹ کیا کہ مسٹر معلومات کو شائع کرنے کے لیے فیلدستین کی کوششیں اسرائیلی فوج کی طرف سے یکم ستمبر کو اس  اعلان کے فوراً بعد سامنے آئیں کہ چھ اسرائیلی یرغمالی غزہ میں ایک سرنگ میں مردہ پائے گئے تھے جب ان کے اغوا کاروں نے ان کو گولی مار دی تھی۔ اس اطلاع کے سامنے آنے سے حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔  جج نے لکھا، فیلدستین کے اقدامات "پبلک ڈسکورس" (عوام کےباہمی مباحثہ)  کو تبدیل کرنے اور الزام کی انگلی کو نیتن یاہو کی جانب سے حماس کے رہنما یھیٰ سنوار کی طرف  پھیرنے کی خواہش" سے پیدا ہوئے، کہ دراصل یحییٰ سنوار ہی معاہدہ نہیں چاہتا۔ یحیٰ سنوار  بعد میں غزہ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔

سات اکتوبر2023  کو حماس نے تقریباً ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، ان میں سے کچھ اسرائیل کی جیلوں مین بند بعض قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں واپس آ گئے جب کہ  100  سے کچھ کم تعداد مین یرغمالی اب تک غزہ میں کہیں رکھے گئے ہیں ۔  ان میں سے کم از کم ایک تہائی کو اسرائیلی حکام نے اپنی معلومات کی بنا پر مردہ قرار دے دیا ہے۔ 


اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر میں سیکیورٹی دستاویزات کے اسکینڈل کے مرکزی ملزم ایلی فیلڈسٹائن پر شبہ ہے کہ اس نے یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات کے حوالے سے رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس نے ایک حساس دستاویز کو بِلڈ جرمن اخبار کو لیک کر کے حماس کے چھ اعلیٰ افراد کے قتل کے تناظر میں پیش کیا تھا۔ غزہ میں یرغمالیوں کی پروفائل۔

ریشون لیزیون مجسٹریٹ کی عدالت کی طرف سے کیس پر ایک گیگ آرڈر کو اٹھائے جانے کے بعد کیس کی مزید تفصیلات اب شائع کی جا سکتی ہیں۔

ٹائمز آف اسرائیل نے اس سکینڈل کے متعلق لکھا کہ اگست کے آخر میں حماس کی قید میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کے قتل کے بعد، ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں نے نیتن یاہو کی حکومت پر یرغمالیوں سے جنگ بندی کے معاہدے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، تو اس کے بعد  فیلدستین نے پہلے کلاسیفائیڈ مواد کو  اسرائیلی پریس میں براہ راست شائع کروانے کی کوشش کی تھی۔

جب ملٹری سنسر نے (مواد کے کلاسیفائیڈ اور لیک شدہ ہونے کی قانونی حیثیت کی اصل حساسیت کو جانے بغیر) اس  مواد اور اس کے ماخذ کی حساسیت کی وجہ سے فلیدستین کی تجویز کردہ  مواد پر مبنی رپورٹوں کی اشاعت کو روک دیا، تو فیلدستین نے اسے غیر ملکی پریس میں شائع کروانے کی کوشش کی، اور اسرائیلی صحافیوں کو  اس مواد کے جرمن اخبار بِلڈ میں شائع ہونے کے بعد دوبارہ اس کے متعلق اپ ڈیٹ کیا تاکہ وہ  اس جرمن اخبار میں شائع ہو چکے مواد کو لے کر فالو اپ کے ٹکڑے لکھ کر شائع کروا سکیں۔

 اس کے بعد فیلدستین نے کلاسیفائیڈ دستاویز ات کو ستمبر میں اسرائیلی پریس میں شائع کرنے کی کوشش کی اور اسے کئی اسرائیلی صحافیوں کو لیک کر دیا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق مبینہ طور پر یہ شبہ ہے کہ فیلڈسٹائن یرغمالیوں کے حوالے سے سیاسی بحث کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا تھا بِلڈ کو مواد لیک کر کے بظاہر حماس کو غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہے، جس کا مقصد اسرائیلی عوام کی نظروں میں  معاہدے کتک پہنچنے میں ناکامی کے لیے نیتن یاہو سے زیادہ حماس اور اس کے رہنما یحییٰ سنوار کو مورد الزام ٹھہرانا ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس لیک میں انتہائی حساس مواد شامل تھا، جس کی اشاعت سے اسرائیل کی سلامتی اور ریاست کو ممکنہ طور پر شدید نقصان پہنچانے کا خیال تھا۔

مزید تفصیل

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے دفتر سے اہم کلاسیفائیڈ دستاویزات لیک ہونے کے سکینڈل میں  اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کی جانب سے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی ہے کہ غزہ میں وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں کو جواز پیش کرنے والی اور ان پالیسیوں کیلئے پبلک میں حمایت پیدا کرنے والی خفیہ اور تحریف شدہ دستاویزات دو غیر ملکی اخبارات کو کیسے لیک ہوئیں۔

ان گرفتاریوں کا اسرائیل کے میڈیا کو علم تو فوراً ہو گیا تھا لیکن یہ گرفتاریاں منظر عام پر  اس وقت لائی گئیں جب اسرائیلی اخبارات نے ایک عدالت کو تحقیقات سے متعلق ایک گیگ آرڈر کو جزوی طور پر ہٹانے پر راضی کیا، عدالت نے اخبارات کو بتایا تھا کہ لیکس سے "غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے جنگی اہداف کو نقصان پہنچ سکتا ہے"۔

مقامی میڈیا کے حوالے سے ریمارکس میں جج نے عدالت میں کہا، "متعدد مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا، اور تفتیش جاری ہے۔"

 اسرائیلی میڈیا نے نومبر کے آغاز میں  جمعہ کو اطلاع دی تھی کہ مشتبہ افراد میں سے ایک (ایلی فیلدستین)  نیتن یاہو کا پریس ایڈوائزر ہے لیکن وہ  ان کے دفتر کا ملازم نہیں۔

نیتن یاہو کے دفتر نے ان گرفتاریوں کے متعلق شائع ہونے والی اطلاعات کو جھٹلایا اور قرار دیا کہ  "جھوٹی اشاعتوں اور میڈیا جو تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، اس کے برعکس، وزیر اعظم کے دفتر سے کسی کی بھی تفتیش یا گرفتاری نہیں کی گئی۔"

برطانیہ میں قائم جیوش کرانیکل اور جرمنی کے اخبار  بِلڈ زیتونگ کو لیک ہونے والی دستاویزات میں "غزہ سے ملنے والی دستاویزات" کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں بتایا گیا  کہ حماس نے یرغمالیوں کے بارے میں پروپیگنڈے کی کوششوں سے اسرائیلی معاشرے کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے,

 ان دستاویزات کی مدد سے یہ تاثر بھی دیا گیا  کہ حماس کا ایک گروپ یرغمالیوں کو نام نہاد فلاڈیلفی کوریڈور کے نیچے سرنگوں کے ذریعے مصر اسمگل کرنا چاہتا تھا، جو غزہ کو مصر سے الگ کرتی ہے۔ اسرائیلی دفاعی فورسز نے مئی میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ نیتن یاہو پر اس مصری سرحد کے قریبی علاقہ کو چھوڑنے کا دباؤ تھا وہ یہ علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، بعد میں ان دستاویزات کے لیک کی مدد سے یہ تاثر دیا گیا کہ دراصل نیتن یاہو کا اس علاقہ کو نہ چھوڑنے پر اصرار کرنا صحیح تھا کیونکہ یہاں سے حماس کا گروپ یرغمالیوں کو مصر سمگل کرنے والا تھا۔ 

یہ کہانیاں اگست کے آخر اور ستمبر کے شروع میں اس وقت سامنے آئیں جب تل ابیب میں سڑکوں پر ہونے والے روزانہ احتجاج نیتن یاہو پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

نیتن یاہو کےا فلاڈیلفی کوریڈور کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار  کے بارے میں بہت سے علاقائی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ  ضد  مذاکرات کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ تھی۔

یہ ڈاکیومنٹ معمولی نوعیت کے اور ناقابل اعتماد تھے

آئی ڈی ایف نے نامہ نگاروں کو ابعد میں بریف کیا کہ یہ دستاویزات،  جنہیں غیر ملکی میڈیا تک پہنچا کر اچھالا گیا،   دراصل حماس کے ایک نچلے درجے کے اہلکار نے لکھی ہیں، پرانی تھیں اور حماس کی حکمت عملی کے بارے میں فوج کی انٹیلی جنس کی نشاندہی نہیں کرتی تھیں۔

جیوش کرونیکل کی معذرت

Bild، جرمنی کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ٹیبلوئڈ ہے، اسے اخبار کو اسرائیل میں نتن یاہو کے حامی اخبار کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے  چھوٹے لیکن بااثر اخبار دی جیوش کرونیکل کو بعد میں اس انکشاف سے دھچکا لگا  اور اس نے اسے اپنے متعلقہ صحافی کی کارستانی قرار دیا۔

1841 میں قائم ہونے والے اسٹوری اخبار  جیوش کرونیکل نے لیکڈ اور مینی پولیٹڈ دستاویزات کی مدد سے لکھے گئے آرٹیکلز کے لیے اپنے ریڈرز سے معذرت کی، انہیں اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا اور صحافی سے تعلقات منقطع کر لیے۔

اس کے باوجود  کئی بااثر مصنفین نےجزوی طور پر اس مسئلے کے ساتھ ساتھ اخبار کی نتن یاہو کی حمایت میں جانے والی کوریج کے بارے میں اختلاف رائے اور اس کی ملکیت کے بارے میں غیر حل شدہ سوالات کو لے کر  احتجاجاً  استعفیٰ دے دیا، ۔