ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا؛ خالد احمد کی لاہور میں تدفین

Khalid Ahmad burried in Lahore, Khalid Ahmad Journalist janaza, Khalid Ahmad died, Linguist Khalid Ahmad
کیپشن: خوبصورت روح اور علم سے بھرے ذہن کے مالک خالد احمد، یوں تو کرنٹ افئئرز سے لے کر تاریخ کے کم ڈسکس کئے جانے والے ابواب تک، مذاہب،  زبانوں اور ثقافتوں کے علوم سے لے کر سماجی رویوں کی تشکیل کے پیچیدہ عوامل تک ہر موضوع پر عالمانہ گرفت رکھتے تھے تاہم زبانوں اور ثقافتوں کی باہمی رشتہ داریاں ان کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع تھیں، وہ الفاظ کی انگلی پکڑ کر ان کے ماخذ بتانے پر ہی نہ رکتے بلکہ ایک سے دوسری، تیسری زبان میں ان کے مترادفات بتاتے اور زبانوں کے ایک دوسرے پر اثرات کے متعلق اپنا علم شئیر کرتے تو سننے والے خود کو صدیوں کے درمیان سفر کرتا محسوس کرتے، ثقافتوں اور نسلی گروہوں کی یگانگت کو اپنی روح میں اترتا محسوس کرتے  تھے۔ فلسفیانہ افکار کے اعتبار سے وہ مارکسسٹ تھے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: نابغہ ماہرِ لسانیات اور سینئیر صحافی خالد احمد قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے۔  خالد احمد نے عمر کا بیشتر حصہ صحافت اور تصنیف و تالیف میں گزارا، وہ پاکستان کے معدودے چند  "زبانوں کے ماہرین"  میں سرِ فہرست تھے جو زبانوں کے ارتقا اور پھیلاؤ پر گہری بصیرت رکھتے تھے۔ 
زمان پارک میں نامور صحافی خالد احمد کی نماز جنازہ  پیر کی شام زمان پارک لاہور میں پڑھی گئی۔ جنازے میں صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں اور  رشتہ داروں ، دوست احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہیں مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔خالد احمد کی عمر  81 سال تھی اور وہ کئی سال سے کینسر سے لڑ رہے تھے۔

خالد احمد اپنے بصیرت انگیز تجزیوں، مقامی اور غیر ملکی زبانوں اور  ثقافتوں  خصوصاً  سائبیریا سے چلنے والی زبانوں کے سلسلہ  اور وسط ایشیائی ثقافتوں کے بارے میں بے پناہ علم، تیز عقل، اور  عمیق فکری گفتگو کے لیے اٹل لگن کے لیے مشہور تھے۔

خالد احمد 1943 میں ہندوستان کے تاریخی شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے، اور لاہور سے تحصیلِ علم کے چند سفروں کے سوا  پھر کہیں نہیں گئے تھے۔

بے مثل راوین، ہفت زبان عالم خالد احمد

خالد احمد نے 1965 میں گورنمنٹ کالج (جی سی) لاہور سے گریجویشن کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (آنرز) مکمل کرنے سے پہلے یونیورسٹی کے اعزازی رول پر  آئے۔ انہوں نے جرمن زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ بعد میں، انہوں نے روسی زبان بھی سیکھی۔  1970 میں ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے اس زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا، اور وہ روس اور مشرقی یورپ میں سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دینے کے لیے چلے گئے۔

بعد میں وہ واشنگٹن ڈی سی چلے گئے، جہاں وہ تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر میں پاکستانی فیلو تھے۔ ووڈرو وِلسن سنٹر میں، انہوں نے ایک پروجیکٹ پر کام کیا جس کا عنوان تھا: "پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور ایران، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے اس کے روابط"، خالد احمد کے اس ریسرچ ورک کو   پاکستان میں فرقہ وارانہ  منافرت اور تشدد کے بنیادی مسئلے پر  حرفِ آخِر تحریر سمجھا جاتا ہے۔

سول سرونٹ ٹرنڈ جرنلسٹ خالد احمد

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد،خالد  احمد نے بیوروکریٹ بننے کا انتخاب کیا اور پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن سِول سروس اس نابغہ پنجابی کیلئے چھوٹا میدان تھا،  بعد میں انہوں نے سول سروس چھوڑ دی اور صحافی بن گئے۔  پاکستان کے چند ممتاز صحافتی اداروں کے لیے کام کیا اور لکھتے رہے جن میں دی پاکستان ٹائمز، دی نیشن، دی فرنٹیئر پوسٹ، دی فرائیڈے ٹائمز شامل ہیں -

خالد احمد نے ڈیلی ٹائمز اور ڈان   کے ساتھ کئی سال کنسلٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر گزارے۔۔ ان کی آخری صحافتی مصروفیت نیوز ویک پاکستان اور اسٹینڈرڈ پاکستان کے ساتھ  کنسلٹنگ ایڈیٹر  کی حیثیت سےتھی۔

متنوع موضوعات کے مصنف خالد احمد

خالد احمد نے پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر کئی کتابیں لکھیں جن میں سے

 The State in Crisis، Pakistan: Behind the Ideological Mask (Facts Behind the Great Men We Dont Want to Know)،

 Word for Word: Stories Behind Everyday Words We Use اور پاکستان  میں دہشت گردی کا معمہ زیادہ ڈسکس ہوتی رہیں۔

خالد احمد کے پسماندگان میں ایک بیٹا ہے۔ 

خالد احمد کیلئے تعزیتیں اور خراجِ عقیدت

خالد کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی ان کے علم و فضل کے خوشہ چین پاکستانیوں میں سوگواری کی لہر دوڑ گئی۔  ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ان سے سیکھنے والوں اور فکری طور پر جاننے والوں نے انہیں ان کے شایانِ شان خراج عقیدت پیش کرنے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لیا۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور مصنف حسین حقانی نے لکھا، "مصنف، صحافی، اور ایڈیٹر خالد احمد کے انتقال سے دکھی ہوں۔ میں اپنے ساتھ ان کی بہت سی گفتگوؤں کو ہمیشہ یاد رکھوں گا اور اس حقیقت بھی ہمیشہ اچھی یاد مین رکھوں گا کہ ہم دوست تھے۔"

اخباری کارٹونسٹ صابر نذر نے نوٹ کیا: "وہ پاکستان کے بہترین دماغوں میں سے ایک تھے۔ جنات میں سے آخری۔"

صحافی اور لکھاری نسیم زہرہ نے کہ، ا"پاکستان کے سب سے پروفیشنل ایڈیٹر، حقیقی اسکالر، ادیب، استاد اور ایک سفارت کار خالد احمد صاحب انتقال کرگئے، ایک نایاب، باشعور فرد، عاجزی سے مالا مال، پڑھانے  اور سکھانےکے بہت شوقین اور سرپرست… اللہ ان کی روح کو سلامت رکھے۔ آمین۔" ۔

ندیم فاروق پراچہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا، "دانشور خالد احمد نہیں رہے، وہ واقعی زبان، ثقافت، سیاست، مذہب اور تاریخ پر دلچسپ انداز میں علم کا سرچشمہ تھے۔ وہ مجھ جیسے متلاشیوں کے لیے ایک تحریک تھے۔ کتنا نقصان ہوا،" 

صحافی خرم حسین نے کہا، " ریسٹ ان پیس خالد احمد۔ ایک عقلمند اور شریف دیو ہمارے درمیان سے گزرا اور اب وہ جا چکا ہے۔ اسے بھلایا نہیں جائے گا،" 

سابق صحافی اور مصنف محمد تقی نے لکھا: " تجربہ کار صحافی، دانشور، اور عظیم انسان خالد احمد نہیں رہے، خالد صاحب کا فلسفیانہ کالم: فرنٹیئر پوسٹ میں 'لفظوں کے بارے میں ایک لفظ' اپنی نوعیت کا ایک تھا۔ابدی آرام کیجئے!"

سیاستدان افراسیاب خٹک نے  ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا: " تجربہ کار صحافی، ماہر لسانیات اور محقق خالد احمد کی وفات ایک بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ وہ چھوٹے لوگوں کے لیے علم، تجربے اور دانش کا سرچشمہ تھے۔ ان میں اقتدار سے سچ بولنے کا حوصلہ بھی تھا۔ ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ مرحوم کی روح کو سکون ملے،‘‘ ۔

 صحافی اور دانشور وجاہت مسعود نے کہا، "پاکستان میں فکری دیانت، روشن خیالی اور تخلیقی لبرل ازم کی قدر کرنے والوں کے لیے خالد احمد کے انتقال سے زیادہ افسوسناک خبر کوئی نہیں ہو سکتی۔" "میں نے خالد احمد سے زیادہ من ذہن اور اتنی وسیع دلچسپیوں کا حامِل کوئی نہیں دیکھا۔ ایک مورخ، ایک کثیر لسانی ماہر، ایک سفارت کار، ایک صحافی،  مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے والا اور بین الاقوامی تجارتی حرکیات کی حرکیات کا  گہرا تجزیہ کرنے والا ماہر اقتصادیات۔۔


وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا خالد احمد کے انتقال پراظہار افسوس

وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سینئر صحافی،ادیب اور دانشور خالد احمد کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سوگوار خاندان سے ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا ہے اور مرحوم ویٹرن صحافی کے لئے دعا کی کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔