ویب ڈیسک : بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے تقریباً ایک سال سے جاری کسانوں کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے متنازع زرعی قوانین منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج پر بیٹھے کسانوں کو گھروں کو واپس لوٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے کسانوں کے متعلق قوانین واپس لینے کا اعلان گرو پورب تہوار پر کیا۔ بھارتی نومبر 2020 سے کسان مودی سرکار کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
بھارتی حکومت اور کسانوں کی یونینز کے درمیان متعدد بار مذاکرات بھی ہوئے لیکن تمام کوششیں ناکام رہیں۔ بھارتی حکومت نے مذکورہ قوانین کو 18 ماہ تک نافذ کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن کسانوں نے متنازعہ قوانین کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
کسان تین نئے فارمنگ بلز پر عمل درآمد کے لیے سراپا احتجاج ہیں، جس سے زرعی تجارت کے قوانین تبدیل ہوجائیں گے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں بھارت کی مختلف ریاستوں میں احتجاج پر بیٹھے کسانوں کو گھروں کو واپس لوٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نریندر مودی کی جانب سے متنازع زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ ہی ماہ بعد بھارتی پنجاب سمیت 5 ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں مودی سرکار کی جانب سے کی جانے والی زرعی اصلاحات کے خلاف پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سمیت مختلف علاقوں میں کسان ایک سال سے احتجاج کر رہے ہیں۔
بھارت میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں کسان اور بی جے پی کے کارکن بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چند ماہ قبل ایک بی جے پی کے وزیر کے بیٹے کی گاڑی نے احتجاج پر بیٹھے کسانوں کو کچل دیا تھا جس پر مشتعل کسانوں نے گاڑی کو نذر آتش کرتے ہوئے اس میں سوار 4 افراد کو قتل کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ 26 نومبر 2020 سے متنازع زرعی قوانین کے خلاف بھارتی میں مظاہرے کیے گئے تھے۔ مودی سرکار نےستمبرمیں2020 میں 3 زرعی قوانین منظور کیے تھے۔
ان قوانین کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں کو نجی تاجروں کے لیے کھول دیا گیا جب کہ اناج کی ایک مقررہ قیمت کی سرکاری ضمانت کے نظام کو ختم کر دیا گیا۔ اس کی جگہ کسانوں کو اپنا اناج کہیں بھی فروخت کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
کنٹریکٹ کھیتی کا بھی نظام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت تاجر اور کمپنیاں کسانوں سے ان کی آئندہ فصل کے بارے میں پیشگی سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔
ان قوانین کے حوالے سے کسانوں کو خدشہ ہے کہ سرکاری منڈیوں کی نجکاری سے تاجروں اور بڑے بڑے صنعتکاروں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور مقررہ قیمت کی سرکاری صمانت نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔
کسانوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بڑے بڑے صنعتکاربہت جلد ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیں گے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو کھلی منڈی حاصل ہو جائیں گی جس سے وہ اپنی پیداوار کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں گے۔