ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے حکومت کو ہائی پروفائل مقدمات میں تبادلوں اور تقرریوں سے روک دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران تبدیل کئے گئے، ڈی جی ایف آئی اے جیسے قابل افسر کو بٹایا گیا۔ بتایا جائے ہائی پروفائل کیسز میں افسران کے تقرر تبادلے کیوں کیے گئے؟ہم نے پراسیکیوشن برانچ کے شفاف اور آزادانہ کام کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے حکومتی شخصیات کی جانب سےتحقیقات میں مداخلت پرازخودنوٹس کی سماعت کی۔
عدالت نے حکم دیا کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن تحقیقات برانچ کے اندر تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو بھی تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتوں سے واپس لینے سے روک دیا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران ECL کی فہرست سے نکالے جانے والوں کے نام بھی طلب کر لئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ ای سی ایل پر نام ڈالنے اور نکالنے کا طریقہ کار اگر بدلا ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں۔
عدالت نے کہا کہ 6 ہفتے میں جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں ان ناموں کی فہرست بھی فراہم کریں۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ آرٹیکل 25 10/A اور 4 کی عملداری ہونا چاہیے، کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ کر برقرار رکھا جائے، ہماری کارروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔
عدالت نے چیرمین نیب،ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی کہ مقدمات میں مداخلت کیوں ہورہی ہے۔ عدالت نے سربراہ پراسیکیویشن ایف آئی اے ، لیگل ڈائریکٹ ایف آئی اے، تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جوابات جمع کرانے کا حکم دیا اور سماعت آئندہ جمعہ تک ملتوی کردی۔
دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ لاہور کی عدالت میں ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، انہیں بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور استغاثہ کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اخبار کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پر ای سی ایل رولز میں تبدیلی سے 3 ہزار افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے، یہ کاروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے، امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا، نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے، اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں، ایف آئی اے پراسیکوٹر نے بھی مداخلت پر بیان دیا ہے، ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کیلئے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کیلئے نہیں کرہے، صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلہ پر ختم ہوتی ہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے، ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے، مقدمات کے ملزمان کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا اور عدالت نے سزائیں نہیں سنائیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا کہ جو بندہ وزیر اعلیٰ/ وزیراعظم بننے والا ہے اس کے مقدمہ میں پیش نہ ہو۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کئے گئے، اس پر تشویش ہے، اس لیے چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لیا آپ تعاون کریں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔
عدالت نے پوچھا کہ ایف آئی اے میں افسران کو ہٹانے، ٹرانسفر ، پوسٹنگ ، تحقیقاتی اور پراسیکوشن برانچ میں تبدیلیوں پر جواب دیا جائے، نیب کی تحقیقاتی اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر جواب دیا جائے، نیب ایف آئی اے میں پراسیکوشن برانچز میں کس کو تبدیل کیا اور اس کی جگہ پر کون آیا، گزشتہ چھ ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے، ایف آئی اے اور نیب میں ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کیا جائے، چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔