سپریم کورٹ تحریک عدم اعتماد میں مداخلت نہیں کرے گی: عمر عطابندیال

19 Mar, 2022 | 02:23 PM

Muhammad Zeeshan

ویب ڈیسک: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال  نے تحریک عدم اعتماد اور ڈی چوک پر جلسے و لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ سندھ ہاؤس میں جو ہوا افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ تحریک عدم اعتماد اور سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی۔تحریک عدم اعتماد پر آئین کیمطابق عمل ہونا چاہیے۔

تحریک عدم اعتماد کے دوران حالات پر امن رکھنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت  ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ  نے سماعت کی۔ 

سپریم کورٹ بار نے آئینی پیٹیشن میں  استدعا کی  کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی ہدایت کی جائے ، حکومتی اداروں کو ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار یا نظر بند کرنے سے روکا جائے ،اسلام آباد میں ایسے عوامی اجتماع سے روکا جائے جس سے ارکان اسمبلی کے قومی اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ بار نے امن و امان قائم رکھنے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔سپریم کورٹ نے آئین کی محافظ ہے، سپریم کورٹ کا کام نہیں کہ امن و امان کو دیکھے۔سپریم کورٹ تحریک عدم اعتماد اور سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے موقف اپنایا کہ ہم نے سپریم کورٹ سے تمام اسٹیک کو پر امن رہنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی ہے۔  چیف جسٹس آ ف پاکستان سے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت بھی کوئی ریفرنس لا رہی ہے ؟ جس پر خالد جاوید نے کہا حکومت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پیر تک صدارتی ریفرنس دائر کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دئیے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ ہاؤس میں جو ہوا ٹھیک نہیں تھا۔کل ہم نے ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا۔سندھ ہاؤس کی حدود میں واقعہ ہونا افسوسناک ہے۔

اس موقع پر  اٹارنی جنرل نے کہا قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں۔تشدد کا بھی جواز نہیں ہے پرامن انداز سے احتجاج کا حق ہے۔میں واقعہ کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں۔ آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود ہیں۔ 

احتجاج کرنے والے لوگوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا۔اسکے بعد 20لوگ سندھ ہاؤس احتجاج کرنے آگئے.13 لوگوں کو سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے پر گرفتار کیا گیا. تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا ۔

چیف جسٹس نے کہا جو کچھ ہو ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں۔ آئین کی عملداری کیلئے یہاں بیٹھے ہیں۔ کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے ؟ سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے۔ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں۔ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔

 سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد سے سندھ ہاؤس واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ سندھ ہاوس واقعہ سے متعلق آئی جی اسلام آباد پیر کو رپورٹ دیں۔پیر کو سپریم کورٹ بار کی درخواست اور حکومتی ریفرنس آگیا تو دونوں کو سنیں گے۔

سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس واقعہ پر تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی   اور جے یو آئی ف کو بھی نوٹسز جاری کر دئیے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔

مزیدخبریں