ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بڑھاپہ روکنے والی دوا،  کیا سائنسدانوں نے طویل العمری کی کنجی دریافت کر لی؟

بڑھاپے کی رفتار کم کرنے والی دوا دریافت ہو گئی، جس سے طویل اور صحتمند زندگی ممکن ہو سکتی ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سائنسدانوں نے واقعی طویل العمری کی کنجی دریافت کر لی ہے؟
کیپشن: file photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: بڑھاپے کی رفتار کم کرنے والی دوا دریافت ہو گئی، جس سے طویل اور صحتمند زندگی ممکن ہو سکتی ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سائنسدانوں نے واقعی طویل العمری کی کنجی دریافت کر لی ہے؟

  طویل العمری، دائمی جوانی، آب حیات ایسے تصورات ہیں جو انسانی تاریخ کی ابتدا سے ہی دلچسپی کے حامل رہے ہیں، تاہم ان تصورات پر اب تک کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا تھا لیکن اب سائنسدانوں نے ایک ایسی دوا تخلیق کی ہے جس کی مدد سے امید کی جا رہی ہے کہ انسانوں میں عمر ڈھلنے کی رفتار کو کم کیا جا سکے گا۔

 حالیہ تجربہ امپیریل کالج لندن کی ایم آر سی لیبارٹری آف میڈیسن سائنس اور ڈیوک این یو ایس میڈیکل سکول سنگاپور نے مشترکہ طور پر کیا جس میں ’انٹرلیوکن 11‘ نامی پروٹین کو جانچا گیا، انسانی جسم میں اس مالیکیول کی مقدار عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور یہ جسمانی سوزش کے عمل کو بڑھاتا ہے، محققین کا کہنا ہے کہ یہ مالیکیول ایسے ’سوئچ آن‘ کر دیتا ہے جو عمر ڈھلنے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

 محققین نے 2 مختلف تجربات کیے ہیں جن میں سے پہلے میں جیناتی تبدیلی کے بعد چوہوں میں ’انٹرلیوکن 11‘ کی قدرتی افزائش کو ختم کر دیا گیا، دوسرے تجربے میں چوہوں کو 75 ہفتوں کی عمر، جو انسانی عمر کے حساب سے 55 سال بنتے ہیں، تک پہنچنے کے بعد ایک ایسی دوا دی گئی جو ’انٹرلیوکن 11‘ کو ان کے جسم سے خارج کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

 ’جنرل نیچر‘ میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج کے مطابق عمر میں 20 سے 25 فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیا جس کا انحصار جنس اور تجربے پر تھا، زیادہ عمر کے چوہے سرطان سے مر گئے لیکن جن چوہوں میں ’انٹرلیوکن 11‘ نہیں تھا، ان پر بیماری کا زیادہ اثر نہیں ہوا، ان جانوروں میں پٹھے بھی بہتر تھے، ان کے جسم توانا اور کھال صحت مند رہی۔
اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان پروفیسر سٹوارٹ کوک کا ان اعدادوشمار اور حقیقت پر مبنی ہونے سے متعلق کہنا ہے کہ ’میں کوشش کر رہا ہوں کہ زیادہ خوش نہ ہوں کیوں کہ جیسے آپ نے کہا یہ کافی ناقابل یقین ہے، اس دوا کا انسانی تجربہ ضروری ہے کیوں کہ اگر یہ واقعی کام کرتی ہے تو یہ انقلاب برپا کر سکتی ہے، وہ یہ دوا خود بھی لینے کو تیار ہیں۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا جو اثرات تجربے میں استعمال ہونے والے چوہوں میں دیکھے گئے، وہی اثرات انسانوں میں بھی ہوں گے اور کیا اس کے کسی قسم کے منفی اثرات تو نہیں، انٹرلیوکن 11 کا انسانی جسم میں ایک واضح کردار ہوتا ہے اور چند نایاب کیسز میں، جن لوگوں میں اس کی افزائش نہیں ہو سکتی، دیکھا گیا ہے کہ جوڑوں، سر کی کھوپڑی میں نقص رہ جاتے ہیں جن کو ٹھیک کرنے کے لیے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔

 اس کے علاوہ انٹرلیوکن 11 کا دانتوں کے نکلنے اور زخم بھرنے سے بھی اہم تعلق ہے، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بڑھاپے میں انٹرلیوکن 11 ایک ’منفی‘ کردار ادا کرتا ہے اور بڑھاپے کی رفتار تیز کر دیتا ہے، یہ دوا ایک ایسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہے جو انٹرلیوکن 11 پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اس وقت اس دوا کو ایسے مریضوں میں آزمایا جا رہا ہے جن کے پھیپھڑوں میں فائبروسس ہے۔ اس بیماری میں پھیپھڑے زخمی ہو جاتے ہیں اور سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔