امریکہ میں ٹک ٹاک ایپ بند، فری مارکیٹ اکانومی کے منہ پر سیاہی پھر گئی

19 Jan, 2025 | 10:21 PM

Waseem Azmet

سٹی42:  امریکہ میں ٹک ٹاک کو کام کرنے سے روکنے کے قانون اور اس قانون کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ٹک ٹاک پر ملک  گیر پابندی کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی TikTok پورے امریکہ میں دستیاب نہیں رہی۔ آج اتوار کے روزسترہ  کروڑ امریکیوں کے فونز پر کل تک کام کر رہی ٹک ٹاک ایپ نے کام کرنا بند کر دیا اور امریکہ میں کام کرنے والے ایپل اور گوگل پلے سٹور نے ٹک ٹاک ایپ فراہم کرنا بند کر دی۔ اس اقدام سے لاکھوں امریکی کلی اور جزوی بے روزگار ہو گئےہیں۔

 اتوار کی روز صرف ٹک ٹاک کی سکرین ہی تاریک نہیں ہوئی بلکہ فری ٹریڈ اور برابر موقع کے امریکہ کے دعووں پر بھی سیاہی پھر گئی۔  اس صدی کے آغاز میں امریکہ نے زور و شور کے ساتھ دنیا کو گلوبل ولیج بنانے کے دل فریب نعرے کے ساتھ اکانومی کل گلوبلائزیشن کا آغاز کیا تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا گلوبل ٹریڈ معاہدہ وجود مین لایا گیا جو کمزور جنوبی ملکوں کی صرف معیچتوں کو کھولنے کے نام سے مقامی قوانین میں سنگین نوعیت کی دراندازیاں کر کے کمزور کمیونٹیز کے لئے سب سڈی تک دینے کی اجازت نہین دیتا کہ اس طرح کی سب سڈیز بیرونی کمپی ٹیٹرز کو مقامی مقابل کے مقابلہ میں ممکنہ طور پر کمزور کر سکتی ہیں۔ اب صرف چوتھائی صدی کے بعد امریکہ میں حالت یہ ہے کہ ایک سوشل انٹرایکشن ایپ کو امریکہ میں کاروبار کرنے سے روکنے کے لئے ایک طرح کا ڈریکونین لا بنا ڈالا گیا۔ اس کمپنی کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا بزنس کسی امریکی انویسٹر کے ہاتھ ہی فروخت کر دےْ
نومنتخب صدر ٹرمپ نے ٹک ٹاک کے قانوناً بند ہونے سے پہلے اشارہ دیا  کہ وہ پیر کو اپنا عہدہ سنبھالنے پر ٹک ٹاک ایپ کو" 90 دن کی توسیع"  دیں گے تاکہ ٹک ٹاک کے مالک  ادارہ بائٹ ڈانس کو فروخت کرنے کے لیے مزید وقت مل سکے۔

لاس اینجلس میں 18 جنوری 2025 کو سیل فون کی سکرین پر TikTok ایپ سے "معذرت، TikTok ابھی دستیاب نہیں ہے" والا پیغام ظاہر ہوتا ہے۔ لاس اینجلس میں حالیہ آگ لگنے کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے تو تمام امریکی ویب سائٹس سے کہیں زیادہ برق رفتار کے ساتھ ٹک ٹاک ایپ استعمال کرنے والے بے گھر امریکیوں کو ضرورت کا سامان مہیا کرنے کے لئے لاس اینجلس کے پارک میں امدادی میلہ لگانے کے لئے آگے بڑھے تھے

 ریاستہائے متحدہ میںایک سو ستر ملین  ٹک ٹاک یوزر  اب اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ویڈیوز دیکھنے  اور اپنا سٹف اپ لوڈ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ہفتہ کو بے حد مقبول ایپ پر وفاقی پابندی کا اطلاق ہوا۔

ٹک ٹاک  ایپ کو ہفتے کی شام ممتاز ایپ اسٹورز سے ہٹا دیا گیا تھا، جس میں ایپل اور گوگل کے ذریعے چلائے جانے والے ایپ بھی شامل ہیں، جبکہ اس کی ویب سائٹ نے صارفین کو بتایا کہ مختصر دورانیہ کی ویڈیو کلپس اور تصاویر شئیر کرنے کا ویڈیو پلیٹ فارم اب دستیاب نہیں ہے۔ ٹک ٹاک کا خود اختیار  کردہ بلیک آؤٹ قانون کے نافذ ہونے سے چند گھنٹے قبل شروع ہو گیا تھا۔

جب صارفین نے آج TikTok ایپ کو کھولا، تو انہیں ایک پاپ اپ میسج کا سامنا کرنا پڑا جس میں کہا گیا تھا، "معذرت، TikTok ابھی دستیاب نہیں ہے،" اور وہ عادت کے مطابق  ویڈیوز کو سکرول کرنے سے  محروم ہو گئے۔

ٹک ٹاک ویب سائٹ کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا ہے۔ "بدقسمتی سے اس کا مطلب ہے کہ آپ ابھی تک TikTok استعمال نہیں کر سکتے۔"

"ہم خوش قسمت ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد TikTok کو دوبارہ بحال کرنے کے حل پر ہمارے ساتھ کام کریں گے،" نوٹس جاری ہے، جس میں امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے پلیٹ فارم کو "بچانے" کے وعدے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ کمپنی نے اپنے صارفین سے کہا کہ وہ دیکھتے رہیں۔

امریکی صارفین کو پیغام دینے کا واحد آپشن ایپ کو بند کرنا یا  یوزر کا کسی دوسرے آپشن پر کلک کرنا ہے جو انہیں ٹک ٹاک پلیٹ فارم کی ویب سائٹ پر لے جاتا ہے۔ وہاں، صارفین کو وہی پیغام دکھایا جاتا ہے اور انہیں اپنا محفوظ  ڈیٹا (ویڈیوز  وغیرہ جو بنا  یا ایڈٹ کر کے یا کاپی کر کے ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی گئیں) ڈاؤن لوڈ کرنے کا آپشن دیا جاتا ہے، ایک آپشن جو TikTok نے پہلے کہا تھا کہ اس پر کارروائی میں دن لگ سکتے ہیں کیونکہ امکان تھا کہ ایپ بند ہونے کی سورت مین لاکھروں اور ممکنہ طور پر کروڑوں یوزر بیک وقت ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے کلک کر سکتے ہیں، جس کے لئے بڑا انتظام درکار تھا۔

Caption   سان فرانسسکو میں ایک شہری اپنے  فون پر TikTok کا لوگو دکھای رہا ہے۔


اس اعلان کے سامنے آنے سے پہلے، TikTok نے صارفین کے لیے ایک اور پیغام میں کہا تھا کہ اس کی سروس "عارضی طور پر دستیاب نہیں ہوگی" اور انہیں بتایا کہ وہ اپنی امریکی سروس کو "جلد سے جلد بحال کرنے" کے لیے کام کر رہا ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ پلیٹ فارم کب تک تاریک رہے گا۔

ہفتہ کو این بی سی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ TikTok کو 90 دن کی توسیع دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو اسے کام جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔ اگر اس طرح کی توسیع ہوتی ہے تو، ٹرمپ - جنہوں نے کبھی TikTok پابندی کی حمایت کی تھی - نے کہا کہ اس کا اعلان "شاید" پیر کو ہوگا، جس دن وہ صدر کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔ ٹِک ٹِک کے سی ای او شو چیو سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ٹرمپ کے افتتاحی تقریب میں ایک اہم نشست کے ساتھ شرکت کریں گے۔

واشنگٹن میں، قانون سازوں اور انتظامیہ کے اہلکاروں نے طویل عرصے سے اس ایپ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے، جسے وہ اس کے مالک کی چینی شہریت کی وجہ سے قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ TikTok بیجنگ میں واقع ایک ٹیکنالوجی کمپنی ByteDance کی ملکیت ہے جو معروف ویڈیو ایڈیٹنگ ایپس CapCut اور Lemon8 بھی چلاتی ہے - یہ دونوں  بھی ہفتے کی شام کو سروس کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔

وامریکہ کے نئے وفاقی قانون کے مطابق بائٹ ڈانس کو اتوار تک TikTok کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے یا ملک گیر پابندی کا سامنا کرناہے۔ اس قانون کو کانگریس نے اپریل 2024  میں منظور کیا تھا جب اس قانون کو جلد منظور کروانے کے لئے  95 بلین ڈالر کے ایک اعلی ترجیحی قانونی  پیکیج کے حصے کے طور پر شامل کیا گیا تھا ۔ اس پیکیج کی اہم قانون سازی  یوکرین اور اسرائیل کو  امریکی امداد فراہم کرنے کے متعلق تھی۔

عدالت میں قانون کا دفاع کرتے ہوئے، بائیڈن انتظامیہ نے استدلال کیا کہ اسے TikTok کی جانب سے امریکی صارف کا ڈیٹا جمع کرنے کے بارے میں تشویش ہے جو کہ زبردستی چینی حکومت کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔

حکام نے الگورتھم کے متعلق  بھی خوف ظاہر کیا کہ جو کچھ صارفین ایپ پر دیکھتے ہیں اسے "چینی حکام کی ہیرا پھیری" کا خطرہ ہوتا ہے، جو  ایلوگرتھم کو  پلیٹ فارم پر مواد کو اس طرح سے شکل دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جس کا پتہ لگانا مشکل ہو۔

 لیکن آج تک، امریکہ نے عوامی طور پر TikTok کی جانب سے کسی صارف کا ڈیٹا چینی حکام کو دینے یا چینی مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس کے الگورتھم سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔

Caption  دو جون 2024 کو بنائی گئی تصویروں کا یہ کولاج  19 اپریل 2024 کو پیرس میں ایک دفتر میں چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم Tiktok کا لوگو ڈسپلے کرنے والا اسمارٹ فون پکڑے ہوئے شخص کو دکھایا گیا ہے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  30 مئی 2024 کو نیویارک شہر میں مین ہٹن کریمنل کورٹ میں فوجداری مقدمہ کی سماعت مین جاتے ہوئےمیڈیا سے بات کر رہے ہیں۔


سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ TikTok کے چین سے تعلقات سے قومی سلامتی کو لاحق خطرے نے ریاستہائے متحدہ میں ایپ یا اس کے 170 ملین صارفین کے ذریعے تقریر کو محدود کرنے کے خدشات پر قابو پالیا ہے۔

انٹرنیٹ کی ترقی میں سیاہ ترین لمحہ

ٹک ٹاک کی سروس کے تاریک ہونے کے بعد، چین میں کچھ لوگوں نے امریکہ پر تنقید کی اور اس پر مقبول ایپ کو دبانے کا الزام لگایا۔ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر ایک پوسٹ میں، چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام اخبار گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر انچیف Hu Xijin نے کہا کہ "TikTok کا امریکہ میں خدمات کو روکنے کا اعلان انٹرنیٹ کی ترقی میں سیاہ ترین لمحہ ہے۔ "

"ایک ایسا ملک جو اظہار رائے کی سب سے زیادہ آزادی کا دعویٰ کرتا ہے اس نے انٹرنیٹ ایپلی کیشن کو انتہائی وحشیانہ طور پر دبایا ہے،" ہو ن زی جِن نے کہا۔ TikTok چین میں کام نہیں کرتا ہے، جہاں ByteDance اس کے بجائے TikTok کے چینی بہن بھائی Douyin کو چلاتی ہے جو  ڈوؤ یِن پلیٹ فارم  چینی حکومت کے سخت سنسرشپ قوانین کی پیروی کرتا ہے۔

عدالتی فیصلے کے بعد، وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین جین پیئر اور ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا موناکو دونوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ قانون کے نفاذ کو ٹرمپ پر چھوڑ دے گی بشرطیکہ ان کا افتتاح پیر کو ہوگا، یعنی ٹک ٹاک پر پابندی کے نفاذ کے اگلے دن۔

لیکن ٹِک ٹِک نے جمعہ کی شام کو کہا کہ اگر انتظامیہ نے امریکہ میں اپنی سروس فراہم کرنے والی ایپل، گوگل اور اوریکل جیسی کمپنیوں کو کوئی "حتمی بیان" فراہم نہیں کیا تو یہ پلیٹ فارم "اندھیرے میں جانے پر مجبور ہو جائے گا"۔ تب جین پیئر نے ٹِک ٹِک کے مطالبے کو "اسٹنٹ" قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ٹِک ٹِک یا دیگر کمپنیوں کے لیے "ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اگلے چند دنوں میں کارروائی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔" لیکن انتظامیہ کے ان بیانات کے باوجود، کنفیوژن برقرار رہی کہ اس وقت تک کیا ہوگا جب تک ٹِک ٹاک اپنی سروس کو بلاک کرنا شروع نہیں کر دیتا۔

Captionوائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر 9 جولائی 2024 کو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کر رہی ہیں۔


قانون کے تحت، موبائل ایپ اسٹورز کو TikTok کی پیشکش کرنے سے روک دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ ہوسٹنگ سروسز کو امریکی صارفین کو سروس فراہم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو ہر صارف کے لیے $5,000 تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے جو TikTok تک رسائی جاری رکھتا ہے، یعنی کمپنیوں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر وہ TikTok کی پیشکش جاری رکھیں تو مجموعی طور پر ایک بڑی رقم ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ یہ لکھا گیا ہے، ماہرین نے کہا کہ قانون کے مطابق TikTok کو اپنا پلیٹ فارم اتارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

فری مارکیٹ اکانومی کے دور کا انجام

یہ قانون موجودہ صدر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر پابندی کے قانون کے نفاذ  کو  90 دن تک مؤخر کر سکتا ہے۔ لیکن نہ تو کوئی واضح خریدار سامنے ہے، نہ  بائٹ ڈانس  TikTok کو فروخت کرے گی۔ بلکہ اس کے برعکس یہ ہو گا کہ دنیا میں فری مارکیٹ اکانومی کا مختصر دور انجام کو پہنچ جائے گا۔ اس ایک امریکی پابندی کے جواب میں چین ایسی ہی پابندیاں امریکی کمپنیوں پر لگائے گا جس سے حتیٰ کی نئی سرد جنگ کا آغاز تک ہو سکتا ہے۔

اس معاملے سے واقف شخص کے مطابق، ہفتہ کو، مصنوعی ذہانت کے اسٹارٹ اپ Perplexity AI نے ByteDance کو ایک نیا ادارہ بنانے کے لیے ایک تجویز پیش کی جو Perplexity کو TikTok کے امریکی کاروبار میں ضم کرتی ہے۔

Perplexity دراصل  ByteDance  کے اس الگورتھم خریدنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہے جو TikTok صارفین کو ان کی دلچسپیوں کی بنیاد پر  ویڈیوز کی فیڈ  مہیا کرتا ہے اور اس نے ہی ٹک ٹاک پلیٹ فارم کو ایک ایسا رجحان بنا دیا ہے جس کی مقبولیت تھمنے میں ہی نہیں آتی۔

دوسرے اریکی سرمایہ کار بھی TikTok پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ "شارک ٹینک" اسٹار کیون اولیری نے حال ہی میں کہا کہ سرمایہ کاروں کے ایک کنسورشیم نے جو اس نے اور ارب پتی فرینک میک کورٹ نے مل کر بائٹ ڈانس کو $20 بلین نقد پیش کیا۔ ٹرمپ کے ٹریژری سکریٹری اسٹیون منوچن نے بھی پچھلے سال کہا تھا کہ وہ TikTok خریدنے کے لیے ایک سرمایہ کار گروپ کو اکٹھا کر رہے ہیں۔

بنیادی نکتہ جو آنے والے دنوں میں ابھر کر زیادہ واضح ہو گا وہ امریکہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں کاروبار کی آزادی کے اس تصور کا مستقبل ہے جس کا پرچار امریکہ اور یورپ نے گزشتہ صدی کے آخری پچاس سال تک بلا تکان کیا اور اس صدی کے آغاز مین دنیا کو گلوبلائز کرنے کا بڑا دعویٰ کیا؛ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کے اندر بھی فری مارکیٹ اکانومی کا وجود باقی رہے گا یا یہ تصور جہاں سے جنم لے کر پھیلا تھا ، وہیں ریاست کے مفادات کے دلدل میں غرق ہو جائے گا۔

مزیدخبریں