ٹک ٹاک کیلئے امریکہ میں بلیک سنڈے، لاکھوں کے روزگار خطرہ میں

19 Jan, 2025 | 02:07 AM

Waseem Azmet

سٹی42: سوشل ایپ ٹِک ٹاک نے برابر مواقع اور کھلے مقابلہ کی جنت امریکہ سے  دیس نکالا ملنے کے بعد آج اتوار کے روز امریکہ مین کاروبار سمیٹنے کے تیاری کر لی ہے لیکن اس ہی دوران امریکہ میں کل 20 جنوری کو حکومت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹک ٹاک کو 90 روز تک  مزید کام جاری رکھنے کی اجازت دیں گے۔

گو کہ ٹک ٹاک کے یچف ایگزیکٹو آفیسر  کل 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس مین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود چین کے  صدر کو فون کر کے ان سے  بہت سی دیگر اچھی باتوں کے ساتھ ایک اچھی بات یہ بھی کی کہ وہ ٹک ٹاک کو امریکہ مین کام کرنے سے روکنے کے قانون پر عمل درآمد روک دیں گے، اس کے باوجود  ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے باوجود ٹک ٹاک کا امریکہ میں مستقبل واضح نہیں ہے۔

 ٹک ٹاک کو امریکہ کی حکومت نے قانون سازی کر کے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ خود کو کسی امریکی کے ہاتھ بیچ دے ورنہ امریکہ میں کام بند کر دے۔ اس قانون کے خلاف امریکہ کی سپریم کورٹ میں اپیل بھی مسترد ہو گئی اور سپریم کورٹ کے جج نے بھی حک دیا کہ ٹِک ٹاک کی انتظامیہ 19 جنوری یعنی آج اتوار کے روز سے امریکہ میں کام نہیں کرے گی اور ٹک ٹاک ایپ کو امریکہ میں ایپ سٹورز سے ہٹا دیا جائے گا۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ 'ممکنہ طور پر' TikTok کو پابندی سے 90 دن کی مہلت دیں گے۔

TikTok پر کان کرنے والے امریکی انفلوئنسرز نے اس صورتحال کو پریشان کن قرار دیا اور کہا،  'ہم پابندی سے باہر اور بے اختیار محسوس کرتے ہیں'
ٹرمپ نے نیوز آؤٹ لیٹ این بی سی نیوز کو بتایا کہ اس معاملے پر ایک اعلان ممکنہ طور پر پیر کو ہی کرین گے جب وہ عہدہ سنبھالیں گے۔ لیکن ٹک ٹاک کا اتوار کیسے گزرے گا یہ  پاکستان میں اتوار کا آغاز ہونے کے بعد بھی واضح نہیں، کیونکہ عدالت اور امریکہ کے قانون نے ٹک ٹاک کو آج اتوار کے روز ہی سے بند کرنے کا حکم دیا ہے اور ٹرمپ اسے کام کرنے کی اجازت پیر  کو اپنے عہدہ کے قانونی آغاز سے پہلے بہرحال نہین دے سکتے۔ 

ٹک ٹاک نے ہفتہ کے روز خوقد اعلان کر دیا تھا کہ بکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ نے ٹک ٹاک کو کام جاری رکھنے کی اجازت دینے کی یقین دہانی نہیں کرائی اس لئے مجبوراً ٹک ٹاک  اتوار کو "ڈارک" ہو جائے گی۔

سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز امریکہ میں ایپ پر پابندی کے قانون کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا، اس فیصلہ کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کے دوران بننے والا یہ قانون نافذ العمل ہو گیا  جو کہتا ہے کہ : ٹک ٹاک تب تک امریکہ میں کام نہیں کر سکتی جب تک اس کی چین میں مقیم پیرنٹ کمپنی "بائٹ ڈانس"  19 جنوری تک اس پلیٹ فارم  کو کسی امریکی خریدار کو فروخت نہیں کر دیتی۔ بائٹ ڈانس نے  اپنے اس گلوبل قوت کے حامل برانڈ کو فروخت کرنے کیلئے کوئی امریکی خریدار  تلاش کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کی بجائے امریکہ کو ہی خدا حافظ کہہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ 

TikTok نے جمعہ کو دیر گئے کہا کہ وائٹ ہاؤس اور محکمہ انصاف "سروس فراہم کرنے والوں کو ضروری وضاحت اور یقین دہانی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو TikTok کی دستیابی کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہیں"۔

لیکن وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے ہفتے کے روز کہا کہ ٹِک ٹِک کا "اندھیرا ہونے"  والا انتباہ "ایک سٹنٹ" تھا۔

انہوں نے کہا، "ہمیں ٹِک ٹاک یا دیگر کمپنیوں کے لیے پیر کو ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اگلے چند دنوں میں کارروائی کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔"

"ہم نے اپنا موقف واضح اور سیدھے طریقے سے بیان کیا ہے: اس قانون کو لاگو کرنے کے اقدامات اگلی انتظامیہ کو  کرنا پڑیں گے۔ اس لیے TikTok اور دیگر کمپنیوں کو ان کے ساتھ کوئی بھی تشویش ڈسکس کرنی چاہیے۔"

ٹرمپ نے جمعہ کے روز کہا کہ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ سے بات کی ہے اور دیگر امور کے علاوہ ٹک ٹاک پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

ٹِک ٹِک کے سی ای او شو زی چیو کے پیر کو ٹرمپ کے افتتاح کے موقع پر ٹیک ایگزیکٹوز میں شامل ہونے کی توقع ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے حکام کا الزام یہ ہے کہ " چینی جاسوس" امریکی وفاقی ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ٹریک کرنے کے لیے ٹَک ٹاک ایپ کے ڈیٹا  کا استعمال کر سکتے ہیں، اس الزام  کی TikTok نے تردید کی ہے۔

امریکی ٹِک ٹاکرز کا بلیک سنڈے

ٹاک ٹاک کا مالک بھلے ہی چینی باشندہ ہے لیکن امریکہ میں ٹک تاک کی مقبولیت کی وجہ ٹک ٹاک کی امریکیوں کے لئے افادیت اور امریکی ٹاک ٹاکرز کے لئے بہت بڑے مواقع فراہم کرنا ہے۔ لاکھوں امریکی ٹک ٹاک پر کام کر کے پیسہ کما رہے ہیں جو ان کی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے، لاکھوں ہی امریکی کاروبار ٹک ٹاک سے اپنا بزنس پروموٹ کر رہے ہیں اور کروڑوں امریکی یوزرز کے لئے ٹک ٹاک سوشل پلیٹ فارم ہے تو اتنے ہی لوگوں کے لئے یہ سوشل پلیٹ فارم سے بڑھ کر کچھ ہے۔
جب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد صورتحال زیادہ سنجیدہ ہوئی ہے تب سے لاکھوں امریکی ٹک ٹاکرز اور عموماً امریکہ سے باہر تمام ٹک تاکرز کی کمیونٹی تشویش میں مبتلا ہیں کوینکہ لگوں کے روزگار اس سے وابستہ ہیں۔

اس سنجیدہ صورتحال مین بھی البتہ ٹک ٹاکرز کی کمیونٹی مزاح اور ہنسنے ہنسانے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ امریکی اور چینی ٹک ٹاکر اسوقت ٹک تاک پر  'متبادل ٹک ٹاک' کے متعلق  لطیفے شئیر کر رہے ہیں۔

چین کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے

دنیا کے سب سے مؤثر  سوشل پلیٹ فارم اور بہت بڑی بزنس اینٹٹی کا من مانے طریقہ سے امریکہ میں گلا گھونٹ دنیا ایسا بھی سہل نہیں کہ امریکہ مین ایک قانون بنے اور نافذ ہو جائے، ٹک ٹاک کے معاملات مین چین کی حکومت مداخلت نہیں کرتی لیکن ٹک ٹاک کی مشکلات میں اس کمپنی کی مدد کرنا چین کے قومی مفادات میں شامل ہے۔ جب تک کچھ نہیں ہوا تب تک چین نے  بھی کچھ نہیں کیا، لیکن جیسے ہی امریکہ میں ٹک ٹاک کے بزنس کو بند کرنے کی بات آئی  تو جمعہ کے روز، واشنگٹن ڈی سی میں چینی سفارت خانے نے امریکہ پر ٹک ٹاک کو غیر منصفانہ طور پر دبانے کا الزام لگایا اور سفارت خانے کے ترجمان نے کہا، "چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا"۔

یہ پلیٹ فارم امریکہ میں تقریباً 170 ملین یوزرز  میں بے حد مقبول ہے، جن میں سے کچھ اس پابندی کے خلاف کانگریس کے اراکین سے اپنے طور پر  لابنگ کر رہے ہیں۔ یہ ایپلی کیشن سوشل سرگرمیوں کے ساتھ ہر طرح کی مارکیٹنگ اور حتیٰ کہ سیاست-  نوجوان ووٹروں تک پہنچنے کے لیے امریکی سیاسی کیمپینرز کے لیے ایک قابل قدر ذریعہ بھی ہے۔

پیر کے روز کچھ بھی ہو تاہم آج اتوار کے روز زمینی حقیقت یہ ہے کہ  گزشتہ اپریل میں منظور کیے گئے قانون کے تحت، ایپ کے امریکی ورژن کو آنے والے دنوں میں ایپ اسٹورز اور ویب ہوسٹنگ سروسز سے ہٹا دیا جائے گا۔

مواد کے تخلیق کاروں اور آمدنی کے لیے اس ایپ پر انحصار کرنے والے چھوٹے کاروباروں کے مالکوں نے نیوز آؤٹ لیٹ  بی بی سی کو بتایا کہ اگر اسے بند کیا گیا تو ان کی زندگیاں غیر معمولی طور پر بدل جائیں گی۔

 نکول بلوم گارڈن، ایک فیشن ڈیزائنر اور آرٹسٹ جو TikTok استعمال کرتی ہیں، نے بی بی سی کو بتایا،"بالواسطہ طور پر، TikTok میری آمدنی کا زیادہ تر حصہ تھا کیونکہ تمام برانڈز چاہتے ہیں کہ ان کی چیزوں کو ایپ پر فروغ دیا جائے،"


ٹک ٹاک کے ساتھ انڈیا میں کیا ہوا تھا

امریکہ کی طرح کھلے مارکیٹ، کھلے مقابلے اور سب کے لئے مواقع کے بلند دعووں کے ساتھ سیاست کرنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ٹک ٹاک کے بے ضررر پلیٹ فارم میں  چین کی مستقبل کی بالادستی دکھائی دیتی ہے،  نریندر مودی نے 2020 میں متنازعہ سرحدوں پر چینی افواج کے ساتھ مہلک جھگڑے ک مین چین کے کنگ فو دستوں سے اپنے فوجیوں کی پٹائی کا بدلہ ٹک ٹاک کو ہی بند کر کے لیا تھا۔ مودی نے  ٹک ٹاک ہی نہیں دوسری درجنوں چینی ملکیتی ایپس کو  بھی بند کر دیا۔

دو ہفتے بعد، بھارت کے انٹرنیٹ فراہم کنندگان کو ایپ تک رسائی روکنے کی ہدایت کے بعد TikTok کے 200 ملین صارفین انڈیا میں لاگ ان نہیں ہو سکے۔

گوگل اور ایپل کے ذریعے چلنے والے ایپ اسٹورز نے بھی TikTok کی ایپلی کیشن کی فراہمی بند کردی۔ ایپ نے قانونی طور پر ہندوستان کی پابندی کو چیلنج نہیں کیا۔

انڈیا مین اس پابندی کے بعد سے، ٹک ٹاک کے کاروباری حریف  پلیٹ فارمز  انسٹا گرام اور یو ٹیوب کے شارٹس فیچرز نے فائدہ اٹھایا۔

میٹا کو بڑے پیمانے پر ہندوستان کے TikTok پابندی سے فائدہ اٹھانے والی کمپنی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ ٹک ٹاک کے لئے انڈیا نہیں ہے۔

مزیدخبریں