(عمران فیاض)میں نے کمپیوٹر آف کیا، جیکٹ پہنی اور آفس سے باہر نکل آیا، دسمبر کا مہینہ تھا، شدید سردی تھی، دھند اس قدر تھی کہ ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔یہ 2011کی بات ہے، اس وقت میں ڈیلی پاکستان کی ویب سائٹ پر بطور سب ایڈیٹر جاب کرتا تھا۔دفتر جیل روڈ پر کینال روڈ کے قریب واقعہ تھا۔ان دنوں میرے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی۔
میں نے سڑک کراس کی اور گندے نالے کیساتھ ساتھ چلتا ہوا گورے قبرستان کے قریب آ گیا،نالے کے دونوں اطر اف سڑک تھی بائیں جانب والی سڑک سرجی میڈ ہسپتال کی جانب جاتی تھی لیکن چونکہ میری عادت تھی کہ میں گورے قبرستان والی سڑک سے گزرتا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے، جب گورے قبرستان کے اطراف وال باؤنڈری نہیں تھی۔
شدید دھند تھی، میں اپنے خیالوں میں مگن چلا جا رہا تھا، ہوا بھی خاصی تیز تھی جس کے زور سے قبرستان میں موجود درختوں کے سوکھے پتوں سے سرسراہٹ کی آوازیں آ رہی تھیں چونکہ سردیوں کی رات تھی، سڑک بھی خالی تھی، کبھی کبھار اکا دکا کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل گزرتی تھی۔
میں گورے قبرستان کیساتھ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا جیسے کہ میں پہلے تذکرہ کر چکا کہ قبرستان کے گرد چار دیواری وغیرہ نہیں تھی، اس لئے سامنے موجو د قبریں دکھائی دے رہی تھیں،میں اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا، اچانک ہی سفید رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص قبرستان سے ناجانے کہاں سے نمودار ہوا اور تیزی سے میرے سامنے آ گیامیں ٹھٹھک کر رک گیا!!۔ دھند تھی اس لئے وہ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا، اس کے اور میرے درمیان چھ سے سات فٹ کا فاصلہ تھا، وہ تھوڑا آگے آیا، فاصلہ کم ہونے پر جب میں نے اسے غور سے دیکھا تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، وہ مکمل طور پر کفن میں ملبوس تھا، اس کے چہرے پر ہلکی سی مٹی صاف نظر آ رہی تھی، پاؤں میں جوتا بھی نہیں تھا،اس کا چہرہ بے حد کمزور تھا ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی!!، وہ بس گھور کر مجھے ہی دیکھ رہا تھا میں بری طرح ڈر گیا۔
اچانک وہ بولا روز یہاں سے گزرتے ہو کبھی ہم سے بھی باتیں کر لیا کرو،کک کون ہو تم میں نے اس سے پوچھا وہ جواب دینے کے بجائے دانت نکالنے لگا، وہ بہت ہی بھدا لگ رہا تھا،میں نے اردگرد دیکھا میرے سوا وہاں کوئی بھی نہیں تھا، میں تھوڑا سا سائیڈ پر ہو کر نکلنے لگا تو وہ پھر میرے سامنے آ گیا ،میرا راستہ روک لیا اور ایک بار پھر بولاکیا ہوا بھائی ہم سے بھاگ کیوں رہے ہو، آؤ بیٹھ کر کچھ باتیں کرتے ہیں، ہم سے بھی باتیں کر لیا کرو ،ہم کئی سالوں سے یہاں اکیلے پڑے ہیں، تم روز یہاں سے گزرتے ہو ذرا ہمارا حال بھی پوچھ لیا کرو۔
اب میں بہت گبھرا گیا تھا، میں نے ایک سائیڈ سے ہو کر دوبارہ گزرنے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی پھرتی سے پھر میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا،اس بار اس کے اور میرے درمیان بمشکل آدھے ہاتھ کا فاصلہ تھا، اس کی بدبودار سانسیں میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں،مجھے اور کچھ نہیں سوجھا میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیلا وہ لڑکھڑا گیا ،میں نے موقع غنیمت جانا اور سائیڈ سے ہو کر دوڑ لگا دی، تھوڑا دوڑنے کے بعد جب میں نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا،میں رک گیا،پورا مڑ کر پیچھے کی جانب دیکھنے لگا لیکن کوئی نظر نہ آیا،اتنی شدید سردی میں بھی میں پسینے سے شرابور ہو گیا۔
میں دوبارہ گھر کی جانب مڑا تو خوف کے مارے میری جان ہی نکل گئی، وہ پھر میرے سامنے کھڑا تھا،اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، اس بار اس کے چہرے پر غصہ تھا،تمہاری اتنی جرات کہ مجھے دھکا دیا ، وہ بولا ،اس کی آنکھیں مزید سرخ ہو گئیں،کک کون ہو تم ْ؟میں بمشکل جرات کر کے بولا،وہ میرے کافی قریب تھا ،میں دو قدم پیچھے ہٹا لیکن اس نے بھی قدم آگےبڑھایا اور یہ فاصلہ ختم کر دیا ،خوف سے میرا حلق خشک ہو گیا،میں اور وہ فٹ پاتھ پر بالکل گورے قبرستان کے ساتھ کھڑے تھے، میں نے ادھر ادھر دیکھا شاید کوئی دوسرا آدم زاد نظر آ جائے لیکن وہاں میرے اور اس کے سوا کوئی نہیں تھا،شدید دھند نے ہر منظر دھندلا دیا تھا ،کبھی کبھار آوارہ کتوں کی بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں جس سے ماحول میں مزید ڈراؤنا پن پیدا ہو رہا تھا ۔
میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا، میں انتہائی دھیمی آواز میں زیر لب بڑبڑایالیکن اس نے میری سرگوشی بھی سن لی ،وہ پھر بولا،سنو وہ سامنے دیکھو ،اس نے قبرستان کی جانب ایک قبر کی صرف اشارہ کیا،شدید دھند تھی قبرسستان میں ساری قبریں پکی تھیں، میں نے اس کی انگلی کے تعاقب میں اپنی گردن گھمائی تو تقریبا دس فٹ کے فاصلے پر ایک قبر دکھائی دی، جو باقی قبروں کی نسبت خاصی خستہ حال تھی، میں نے غور سے دیکھا تو قبر اوپر سے ٹوٹی ہوئی تھی،میں نے دوبارہ اپنے سامنے موجود کفن میں ملبوس اس شخص کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا،وہ پھر گویا ہوا ،میں اس قبر کا مردہ ہوں،میں تین چار قدم پیچھے ہٹا اور بولا دیکھو راستہ چھوڑو مجھے جانے دو۔تو پھر تم اب مجھے دوبارہ دھکا دو گے؟ وہ بولا اور ایک بار پھر میری جانب بڑھا، ایک با ر پھر اس کے اور میرے درمیان محض آدھے ہاتھ کا فاصلہ تھا،اب مجھے غصہ آ گیا تھا ،میری دانست میں وہ کوئی نشئی وغیرہ تھا اور اس طرح کا بہروپ بدل کر لوگوں کو ڈراتا تھا ،وہ میرے بالکل قریب کھڑا تھا، میں نے تنگ آ کر ایک مرتبہ پھر اسے پیچھے کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی لیکن خوف کے مارے میری جان حلق تک آ گئی کیونکہ سامنے ہوتے ہوئے بھی میں اسے چھو نہ پایا یعنی میرا ہاتھ اس کے جسم کے آرپار ہو گیا،اس کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آ گئی۔
وہ میرے سامنے موجود تھا لیکن اس کا وجود ہوا کی مانند تھا،اس کے مکروہ چہرے پر ایک بار پھر غصہ دکھائی دیا ،میں بری طرح ڈر گیا تھا،قبر کا مردہ میں زور سے چیخا اور واپس جیل روڈ کی طرف بھاگنے لگا ،لگ بھگ تین قدم ہی بھاگ پایا تھا کہ اچانک وہ میرا راستہ روکے پھر میرے سامنے موجودتھا،یہ سارا منظر دیکھ کر میں غش کھا کر گرپڑا اور بے ہوش ہو گیا۔
میرے کاندھے کو کوئی آہستگی سے ہلا رہا تھا،میں پوری طرح آنکھیں نہیں کھول پا رہا تھا،کوئی مجھے میرے نام سے پکار رہا تھا،عمران ،عمران اٹھو،کیا ہوا تمہیں؟میری آنکھیں کھلیں تو مجھے اپنے اردگرد شناسا چہرے ،یعنی میرے دونوں بھائی،والدہ ،چھوٹی بہن نظر آئی،بھوت ،بھوت،قبر کا مردہ،میں زور زور سے چیخنے لگا،سب پریشان ہو گئے،اتنے میں ایک ڈاکٹر تیزی سے بیڈ کے قریب آیا،بڑی شفقت سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا ،جی عمران صاحب اب کیسی طبیعت ہے؟ میرے بہن بھائی اور والدہ بھی میرے قریب آ گئے ،مجھے تسلی دی، میں کہاں ہوں؟ میں نے پوچھا، مجھے بتایا گیا کہ میں سروسز ہسپتال میں ہوں،رات کو دو بجے کے قریب پولیس کو میں گورے قبرستان کے پاس بے ہوشی کی حالت میں ملا تھا ، پولیس مجھے سروسز ہسپتال چھوڑ گئی تھی، میری جیب میں موجود آئی ڈی کارڈ کی مدد سے پولیس میرے گھر پہنچی اور گھر والوں کو اطلاع دی۔میں پورے گیارہ گھنٹے ہسپتال میں بے ہوش رہا تھا۔
ڈاکٹر میرے بڑے بھائی سے بات کرنے لگا، وہ پوچھ رہا تھا کیا کبھی پہلے بھی ان کے ساتھ ایسا ہوا ہے، انہیں نفسیاتی طور پر کوئی مسئلہ تو نہیں؟ یہ ڈراؤ نی فلمیں وغیرہ تو نہیں دیکھتے؟۔میرے بھائی نے جواب دیا ایسا کچھ نہیں،ہم خود حیران ہیں ان کیساتھ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے مجھے انجکشن دیا میں سو گیا،دوبارہ آنکھ کھلی تو میں قدرے سنبھل گیا تھا، شام کے سات بج رہے تھے،اتنے میں ایک سینئر ڈاکٹر آئے،میرا حال پوچھا اور میر ی فائل چیک کرنے لگے، دو منٹ بعد ڈاکٹر نے میرے بھائی سے کہا، اب یہ ٹھیک ہے،آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔
ہسپتال سے واپسی پر ٹیکسی میں بیٹھ کر میں رات کو پیش آنے والے واقعے بارے سوچتا رہا،ٹیکسی میں میرے ساتھ میری بہن اور والدہ تھیں، بھائی موٹرسائیکل پر ساتھ ساتھ ہی تھے۔
ہم سب گھر پہنچے تو سب گھر والے میرے اردگرد اکٹھے ہو گئے اور پوچھنے لگے کیا ہوا تھا؟اب میں انہیں کیا بتاتا کسی نے میری بات کا یقین نہیں کرنا تھا،لہذا میں نے اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا،شاید زیادہ کام کی وجہ سے تھک گیا تھا بلڈ پریشر لو ہوا اور راستے میں ہی بے ہوش ہو گیا۔
اس واقعے کو لگ بھگ بارہ سال بیت چکے لیکن یہ آوازیں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں ۔
''بھائی ہم سے بھاگ کیوں رہے ہو آؤ بیٹھ کر کچھ باتیں کرتے ہیں!! ہم سے بھی باتیں کر لیا، کرو ہم کئی سالوں سے یہاں اکیلے پڑے ہیں، تم روز یہاں سے گزرتے ہو ذرا ہمارا حال بھی پوچھ لیا کرو''!!۔
یہ مصنف کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے،قارئین کا اس واقعے کی سچائی سے متفق ہونا ضروری نہیں۔