امریکی حکومت کی انڈیا میں انتخابی عمل میں مداخلت ؛ ٹرمپ کا انڈیا کو فنڈز دینے پر اعتراض ،ایلون نے فنڈز روک دیے

19 Feb, 2025 | 07:22 PM

ویب ڈیسک : انڈیا میں انتخابی عمل میں امریکہ  کی جانب سے  21 ملین  ڈالرز  کے فنڈز  دیے جانے پر بھونچال آگیا ، ٹرمپ نے فنڈ ز دینے پر اعتراض اٹھایا تو کئی انکشافات سامنے آگئے 

انڈیا میں انتخابی عمل پر امریکہ کی ارب پتی شخصیت اور صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک کے محکمے کی جانب سے ایک حالیہ دعوے نے ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس دعوے کے مطابق امریکی حکومت نے انڈیا میں ’ووٹر ٹرن آؤٹ کو بڑھانے‘ کے لیے 21 ملین (تقریباً 182 کروڑ روپے) مختص کیے تھے۔ایلون مسک کے محکمے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (Doge) نے 16 فروری 2025 کو 15 نکات پر مشتمل جو فہرست پیش کی اس میں’انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ‘ کی مد میں 21 ملین ڈالر کا ذکر کیا  گیا، جسے اب منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (Doge) کے مطابق کئی ایسے منصوبے منسوخ کر دیے گئے ہیں جن کا مقصد امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالروں سے دنیا بھر میں کسی نہ کسی مقصد کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ اخراجات یو ایس ایڈ کے تحت ہوتے تھے جن کا مقصد امریکہ کے قومی مفاد کے لیے دوسرے ممالک کو امداد فراہم کرنا رہا ہے۔ایلون مسک کے محکمے کی جانب سے اس دعوے کے بعد انڈیا کے سوشل میڈیا پر جہاں انتخابی عمل میں ’بیرونی مداخلت‘ کی بات ہو رہی ہے تو کوئی اسے انڈیا کی ’بے عزتی‘ قرار دے رہا ہے۔
لوگ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ پیشرفت انڈین وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے فوراً بعد ہوئی۔انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے انڈیا کے انتخابی عمل میں ’بیرونی مداخلت‘ قرار دیا۔ بی جے پی کے قومی ترجمان اور آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے 21 ملین ڈالر؟ یہ یقینی طور پر انڈیا کے انتخابی عمل میں بیرونی مداخلت ہے۔ اس سے فائدہ کس کو ہو گا؟ یقینی طور پر حکمران جماعت کو نہیں۔‘امت مالویہ نے مزید الزام لگایا کہ یہ غیر ملکی قوتوں کے ذریعہ انڈین اداروں میں ’منظم دراندازی‘ ہے۔
اس کے جواب میں انڈیا میں کانگریس کے ترجمان اور میڈیا اور پبلیسٹی کے چیئرمین پون کھیڑا نے لکھا کہ ’کوئی انھیں بتائے کہ 2012 میں جب انڈین الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کو مبینہ طور پر یو ایس ایڈ سے یہ فنڈنگ ملی تو حکمران جماعت کانگریس تھی۔اس حساب سے کیا حکمران جماعت (کانگریس) نام نہاد ’بیرونی مداخلت‘ حاصل کر کے اپنے ہی انتخابی امکانات کو سبوتاژ کر رہی تھی اور یہ کہ کیا اپوزیشن (بی جے پی) نے 2014 کے انتخابات یوایس ایڈ کی وجہ سے جیتے تھے؟‘

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی سابق وزیر اعلی اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بھی اس متعلق ایک پریس نوٹ میں تشویش کا اظہار کیا۔

امریکہ سے آنے والی خبریں کافی چونکا دینے والی ہیں کیونکہ مبینہ طور پر انڈیا میں ووٹنگ میں اضافے کے نام پر 21 ملین ڈالر کی بڑی رقم فراہم کی گئی۔ ملک کے لوگوں کو محتاط رہنا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ آیا یہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے۔‘
ایک صارف بھاویکا کپور نے لکھا کہ ’انتہائی حیرت والی بات ہے کہ اب تک امریکہ انڈین انتخابی نظام میں مداخلت کر رہا تھا، تقریباً 200 کروڑ روپے سالانہ خرچ کرتا تھا۔ انڈیا میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کی کوششوں کو فنڈ کر رہا تھا۔ ایلون مسک نے اب اس فنڈنگ کو روک دیا لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فنڈنگ کہاں جا رہی تھی؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ انڈین جمہوریت میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے؟‘

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے بھارت کے پاس بہت پیسہ ہے، ہم انہیں کروڑوں ڈالر کیوں دے رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کے مـحکمے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی  (DOGE) کی جانب سے حکومتی اخراجات کم کرنے کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ہم کیوں بھارت کو 21 ملین ڈالر کی خطیر رقم دے رہے ہیں۔ٹرمپ  کا مزید کہنا تھا بھارت کے پاس بہت پیسہ ہے، بھارت دنیا ہمارے مقابلے میں دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس کرنے والے ممالک میں شامل ہے، ہم وہاں سے شاید ہی کچھ حاصل کر پاتے ہیں کیونکہ ان کے ٹیکس ریٹ بہت زیادہ ہیں، بھارت اور نریندر مودی کا بہت احترام ہے لیکن ہم ووٹر ٹرن آؤٹ کے لیے بھارت کو 21 ملین ڈالر کیوں دے رہے ہیں۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں شامل اکنامک ایڈوائزری کونسل کے ممبر سنجیو ساں یل کے بیان کے کچھ روز بعد آیا ہے۔سنجیو ساں یل نے DOGE کی جانب سے بھارتی امداد کی بندش کے فیصلے بعد USAID پروگرام کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ قرار دیا تھا۔
 

مزیدخبریں