حکومت کے 2 سال، 5 آئی جی تبدیل، پولیس اصلاحات منصوبہ ناکام

19 Aug, 2020 | 11:31 AM

Shazia Bashir

ما ل روڈ (عرفان ملک) اقتدار کے دو سال، 5 آئی جی تبدیل لیکن موجودہ حکومت پنجاب پولیس میں تبدیلی نہ لاسکی، دوسال کے دوران پنجاب پولیس کی وردی پر ساہیوال میں نہتے اور بے گناہ خاندان کے خون کے دھبے پڑے تو لاہور کے دل کے ہسپتال میں وکلاء کی توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی میں نااہلی کا الزام بھی لگا۔ 

 

انکوائریاں ہوئیں لیکن ان کیسز کی فائلوں پر دھول جم گئی، صوبے کے پانچ آئی جی تبدیل ہوئے،   صوبائی دارالحکومت کے تین چیف پولیس آفیسر بدلے، نہ بدلا تو محکمے کا رویہ اور حالات نہ بدلے۔ تھانہ کلچر  کی تبدیلی کے لیے سپیشل انیشیٹیو تھانوں کا افتتاح کیا گیا لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھی۔

 

وزیر اعلیٰ نے خدمت مراکز کا افتتاح کیا لیکن افتتاح کے بعد کام وہیں کا وہیں رک گیا۔سابق دور حکومت میں شروع  ہونے والا سیف سٹیز پراجیکٹ بھی دو سال سے حکومت کی توجہ کا منتظر لیکن لاہور کے علاوہ کسی ضلع میں اس کو مکمل نہ کیا جاسکا، ناصر درانی کو لایا گیا لیکن ان کے جانے کے بعد اصلاحات کا باب بھی بند ہوگیا۔

 

سیاسی مداخلت کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے، ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ، صوبائی وزیر کے بیٹے کا پولیس اہلکاروں سے جھگڑا، افسروں کے آئے روز تبادلے پولیس فورس کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے رہے، سٹریٹ کرائم گرشتہ سال کے نسبت  20فیصد بڑھا۔ کیپٹل سٹی میں ڈکیتی، راہزنی کے واقعات عام ہونے لگے۔

 

رواں سال بیس افراد ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہوئے لیکن حکام سب اچھا کے دعوے پر قائم رہے، موجودہ حکومت کی جانب سے پولیس اصلاحات کے لیے کچھ نہ کیا گیا لیکن سابق دورحکومت میں بننے والے پراجیکٹس ڈولفن اور سیف سٹیز اتھارٹی فنڈز کی کمی کے باعث اپنی آخری سانسیں لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔

مزیدخبریں