سٹی42: اسرائیل کے جمعہ کی رات ایران میں اصٖفہان کے فوجی اڈے پر میزائل سےحملہ کی کافی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔
ایران کے اسرائیل پر سینکڑوں میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ حملہ کے کئی روز بعد اسرائیل نے جمعہ کی شب اصفہان پر میزال حملہ کیا جس کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اصفہان کے فوجی اڈے پر گرا۔
اصفہان کے علاقے پر حملے کے حجم اور کسی نقصان کی حد کے بارے میں اسرائیل اور ایران متضاد دعوے کر رہے ہیں۔ ایرانی سرکاری میڈیا اس حملہ کی اہمیت کو کم بتا رہا ہے جبکہ بین الاقوامی میڈیا اس میں گہری دلچسپی لے رہا ہے۔
یہ حملہ علاقائی حریفوں کے درمیان کئی ہفتوں سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل نے جو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک ایرانی کمپاؤنڈ پر میزائل سےحملہ کیا تھا جس میں دو ایرانی جنرل مارے گئے تھے۔ اس کے کچھ روز بعد ایران نے اسرائیل کے خلاف ایک غیر معمولی حملہ کیا جس میں سینکڑوں میزائل استعمال ہوئے۔
جمعہ کی شام تک کیا کچھ سامنے آیا؟
اسرائیل معمول کے مطابق اپنی فوجی کارروائیوں کی تصدیق نہیں کرتا، جنہوں نے کئی مواقع پر شام اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل نے اسصفہان پر حملہ کے متعلق بھی کوئی رسمی اعلان نہیں کیا تاہم امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ جمعہ کی صبح ایک اسرائیلی میزائل نے ایران کو نشانہ بنایا۔یہ واضح نہیں ہے کہ کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے گئے تھے یا انہیں کہاں سے لانچ کیا گیا تھا۔
امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک میزائل مارا گیا تھا جب کہ ایران نے کہا کہ یہ چھوٹے ڈرونز کا حملہ تھا۔
ایران کی حکومت ایران کے اندر میڈیا کی رسائی کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے۔اصفہان کے فوجہ اڈے پر حملہ کے بعد صحافیوں کو اصفہان کے اس مرکزی علاقے تک براہ راست رسائی نہیں ہے، جہاں یہ واقعہ ہوا۔
ایران حملے کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے؟
کچھ ایرانی حکام اور ذرائع ابلاغ نے یہ تو تصدیق کی ہے کہ اصفہان پر حلہ ہوا لیکن وہ اس کی اہمیت کو کم کر رہے ہیں۔ جانی نقصان کی ایرانی میڈیا میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ایران کی فارس نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایک فوجی اڈے کے قریب دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور فضائی دفاعی نظام کو فعال کر دیا گیا۔
ایک سرکاری میڈیا چینل نے اصفہان میں ایک جنرل کے حوالے سے بتایا کہ علاقے میں دھماکوں کی آوازیں "مشکوک اشیاء پر فضائی دفاعی فائرنگ کی وجہ سے" تھیں،حملہ سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم، جو ایران کے طاقتور اسلامی انقلابی گارڈ کور کے فوجی ونگ کے قریب ہے، نے اصفہان میں ایک جوہری تنصیب کی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں اس تنصیب کو صحیح سلامت دکھایا گیا ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نےبھی تصدیق کی ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
ایران کے نیشنل سینٹر آف سائبر اسپیس کے ترجمان حسین دلیرین نے میزائل حملہ کے وجود سے ہی انکار کرتے ہوئے کہا کہ "بیرونی سرحدوں سے کوئی فضائی حملہ نہیں ہوا"۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے "کواڈ کاپٹرز [ڈرون] اڑانے کی کوشش کی تھی اور ان کواڈ کاپٹروں کو بھی مار گرایا گیا ہے"۔
ایران نے جمعہ کو علی الصبح اس میزائل حملے کے فوراً بعد کمرشل پروازوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن ابپابندی ختم کر دی گئی ہے۔
شام اور عراق میں اسرائیل کے میزائل حملے
عراق اور شام میں بھی دھماکوں کی اطلاع ملی ہے - جہاں ایران کی حمایت یافتہ مسلح گروپ کرتے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان کا اصفہان حملے سے براہ راست تعلق تھا۔
شام کی وزارت دفاع نے کہا کہ شام کے جنوب میں ایک فضائی دفاعی سائٹ کو مقامی وقت کے مطابق جمعہ کی صبح سویرے اسرائیلی میزائل نے نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے اس حملے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اصفہان کو کیوں نشانہ بنایا گیا اور اس وقت کیوں؟
صوبہ اصفہان ایران کے وسط میں ایک بڑا علاقہ ہے جس کا نام اس کے سب سے بڑے شہر سے لیا گیا ہے۔
یہ خطہ اہم ایرانی فوجی انفراسٹرکچر کا گھر ہے، جس میں ایک بڑا ایئربیس، ایک بڑا میزائل پروڈکشن کمپلیکس اور متعدد جوہری تنصیبات شامل ہیں۔
اسرائیل عام طور پر امریکہ کو فوجی کارروائی کے بارے میں پیشگی بتا دیتا تھا لیکن اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کیپری میں جی 7 اجلاس میں صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کو "بالکل آخری لمحات میں مطلع کر دیا گیا تھا"۔
گزشتہ ہفتے وسیع پیمانے اور بے مثال نوعیت کے باوجود، ایران کا اسرائیل پر حملہ بڑی حد تک ناکام رہا، جس میں زیادہ تر پروجیکٹائلز کو اسرائیل کے فضائی دفاع نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے مار گرایا۔
کیا اس حملے سے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھے گی؟
اس تازہ حملے کے بعد ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا ایران اس کا کیاجواب دینے کی کوشش کرے گا۔
بی بی سی کے سیکیورٹی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر نے جمعہ کے حملے کے پیمانے کو "محدود، تقریباً علامتی" قرار دیا اور ممکنہ طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا کہ تنازعہ مزید آگے نہ بڑھے۔