مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے پہلے مرحلہ میں کہا جا رہا ہے کہ ووٹرز ٹرن آؤٹ 58 فیصد سے زیادہ رہا۔ آج جن سات ضلعوں مین ووٹنگ ہوئی ان میں سے 4 انتخابی حلقوں میں 74 فیصد سے 80 فیصد تک ووٹ بھی ڈالے گئے۔
مقبوضہ جموں کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں بدھ کو سات جنوبی اضلاع کے 24 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ یہ دس سال مین ریاستی اسمبلی کا پہلا الیکشن ہے۔
جموں و کشمیر میں تین مرحلوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹنگ پرامن رہی، سات اضلاع میں پھیلے ہوئے 24 اسمبلی حلقوں میں سے کسی میں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ پولنگ کے اختتام پر ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 58.85 فیصد رہی۔
یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا پرست حکومت کی جانب سے 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے، ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں شمار کرنے کے بعد بھی پہلا ریاستی الیکشن ہے۔
بھارت کے میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، اندروال میں سب سے زیادہ 80.06 فیصد ووٹ ڈالے گئے، اس کے بعد
پڈر ناگسینی میں 76.80 فیصد اور کشتواڑ میں 75.04 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ڈوڈا مغربی میں بھی اس مدت کے دوران 74.14 فیصد کا زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔
وادی کشمیر میں پہلگام میں سب سے زیادہ 67.86 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ اس کے بعد ڈی ایچ پورہ 65.21 فیصد، کولگام 59.58، کوکرناگ 58 فیصد اور ڈورو 57.90 فیصد رہا۔
سب سے کم ٹرن آؤٹ 40.58 فیصد ترال میں ریکارڈ کیا گیا، پلوامہ ضلع کے چار حلقوں نے بھی 50 فیصد کا ہندسہ عبور نہیں کیا۔
الیکشن کی خاص بات
انجینئر رشید کی کشمیر عوامی اتحاد پارٹی، جس نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا ہے، اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس جیسے کھلاڑی بھی میدان میں ہیں۔ مزید برآں، کچھ علیحدگی پسند تنظیمیں کئی سیٹوں پر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔بارہمولہ: جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے ہندوارہ اور کپوارہ میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔ سجاد غنی لون کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کارکنان میں جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔ جب سجاد غنی لون کاغذات نامزدگی جمع کروانے گئے تو ان کے حامیوں نے''مودی کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے'' کے نعرے بلند کئے۔
آج ہونے والے الیکشن راؤنڈ میں شریک نمایاں چہروں میں کولگام سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے محمد یوسف تاریگامی، ڈورو میں اے آئی سی سی کے جنرل سکریٹری غلام احمد میر، دمہل حاجی پورہ سے نیشنل کانفرنس کی سکینہ ایتو، دیوسر سے پی ڈی پی کے سرتاج مدنی، سری گفوارہ-بجبہاڑہ میں محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی، اور عبد اللہ، شنگوس اننت ناگ میں رحمان ویری شامل ہیں۔
آج ہونے والے انتخابی معرکوں میں سے توجہ کا ایک مرکز پلوامہ اور سری گفوارہ-بجبہاڑہ ہے، جہاں پی ڈی پی کے وحید پارا اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی بالترتیب الیکشن لڑ رہی ہیں۔
جموں میں ہونے والے الیکشن میں شریک نمایاں شخصیات میں سابق وزراء سجاد کچلو (NC)، خالد نجید سہروردی (NC)، وقار رسول وانی (کانگریس)، عبدالمجید وانی (DPAP)، سنیل شرما (بی جے پی)، شکتی راج پریہار (ڈوڈا ویسٹ) اور غلام محمد سروڑی شامل ہیں۔
اگرچہ این سی اور کانگریس اتحاد میں ہیں، دونوں جماعتوں نے بانہال، بھدرواہ اور ڈوڈا میں ایک دوسرے کے مقابل امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
پہلے مرحلے میں 23 لاکھ سے زیادہ ووٹر 90 آزاد امیدواروں سمیت 219 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
الیکشن کمیشن (EC) کے مطابق، فیز 1 میں کل 23,27,580 ووٹرز ووٹ ڈالنے کے اہل تھے، جن میں 11,76,462 مرد، 11,51,058 خواتین اور 60 تیسری جنس کے ووٹرز شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 14,000 پولنگ عملہ 3,276 پولنگ سٹیشنوں پر اس عمل کی نگرانی پر مامور تھا ۔