اویس کیانی::چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جا رہی، یہ سب میڈیا میں جاری قیاس آرائیاں ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اصولی طور پر مولانا فضل الرحمان میثاق جمہوریت میں درج آئینی عدالت اور ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار پر متفق ہیں، جزئیات اور تفصیلات سمجھنے کے لئے وقت مانگا ہے
سینٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان راضی ہو جائیں گے، جے یو آئی (ف) اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے ترامیم منظور ہو جائیں گی۔ترامیم کا باب ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھ رہا ہے، پیپلز پارٹی اس عمل میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے،جج کیا تنخواہ لیں گے، کب ریٹائر ہوں گے؟ یہ سب فیصلے پارلیمنٹ نے ہی کئے ہیں اور آئیندہ بھی وہی کرے گی جو تمام اداروں کی ماں ہے،وکلاء سے رابطہ کرکے ان کی رائے لی جائے گی، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈر ہیں ،سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکو، یہ ایسا ہی ہے جیسے عدلیہ کو فیصلے دینے سے روک دیا جائے ۔دو تہائی اکثریت نہ ہوئی تو ترمیم بھی نہیں ہوگی،نواز شریف نے اٹھارہ سال پہلے میثاق جمہوریت میں جو چیزیں طے کی تھیں، ان پر سب متفق ہیں، ترمیم کے لئے رابطے ان کی ذمہ داری نہیں ،سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت، اس میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر نہیں بڑھائی جا رہی، یہ سب میڈیا میں جاری قیاس آرائیاں ہیں۔مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان راضی ہو جائیں گے، جے یو آئی (ف) اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے ترامیم منظور ہو جائیں گی۔ جج کیا تنخواہ لیں گے، کب ریٹائر ہوں گے؟ یہ سب فیصلے پارلیمنٹ نے کئے ہیں اور آئیندہ بھی وہی کرے گی، وکلاء سے رابطہ کرکے ان کی رائے لی جائے گی، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکو، یہ ایسا ہی ہے جیسے عدلیہ کو فیصلے دینے سے روک دیا جائے۔ دو تہائی اکثریت نہ ہوئی تو ترمیم بھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 25 یا چھبیس ترامیم ہوچکی ہیں۔ سب مشاورت کے عمل سے گزر کر منظوری کی منزل تک پہنچی ہیں۔ ترامیم کا باب ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھ رہا ہے، پیپلز پارٹی اس عمل میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمان سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ترامیم سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور طے پایا کہ مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے تاکہ اتفاق رائے قائم ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت اٹھارہ سال پہلے ہوا تھا جس سے بعد ازاں مولانا فضل الرحمان اور عمران خان نے بھی اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اٹھارہ سال پہلے میثاق جمہوریت میں جو چیزیں طے کی تھیں، ان پر سب متفق ہیں، ترمیم کے لئے رابطے ان کی ذمہ داری نہیں۔
اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے جو طریقہ کار طے کیا گیا تھا وہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے دباؤ کی وجہ سے انیسویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ اسی طریقہ کار کو بحال کرنے کے لئے حالیہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے اعتراف کیا کہ مولانا فضل الرحمان کے بغیر ہمارے نمبر پورے نہیں، انہیں آن بورڈ لینا ہوگا، مولانا فضل الرحمان کو اصولی طور پر ترامیم سے اتفاق ہے۔وہ آئینی عدالت اور اٹھارویں ترمیم میں ججوں کے طریقہ کار سے متفق ہیں، جزئیات اور تفصیلات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم تب ہوگی جب مولانا راضی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے، وہ متحرک کردار ادا کر رہی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم مولانا فضل الرحمان اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے منظور ہو جائے گی۔ قیام پاکستان کے بعد سے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ نہیں تھا۔ یہ طریقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بدلا تھا اور خود بھی اس کا شکار ہو کر گھر چلے گئے تھے کیونکہ وہ خود سنیارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر پر تھے۔ چار سینیئر ترین ججوں میں سے ایک جج کو چیف جسٹس تعینات کرنے کا پرانا نظام بحال کرنا چاہتے ہیں