ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مقبوضہ کشمیر انتخابات 2024:  کیا ووٹ سے ری وولٹ ممکن ہے؟

تحریر: وسیم عظمت

Kashmir State Election 2024, city42 , Blog
کیپشن: بھارت کے مقبوضہ جموں کشمیر  میں 7 مئی 2009 کو عام انتخابات 2009 کے چوتھے مرحلے کے دوران بڈگام کے ایک پولنگ بوتھ سے ووٹ ڈالنے کے بعد ایک ووٹر باہر آ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی اور بھارتی لوک سبھا کے الیکشن کا عام طور پر آزادی پسند سیاستدان اور ووٹر بائیکاٹ کرتے رہے ہیں، آج شروع ہونے والے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں البتہ کئی آزادی پسند سیاستدان حصہ لے رہے ہیں۔  فوٹو بذریعہ وِکی پیڈیا
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 مقبوضہ کشمیر میں 2019 میں بھارتی آئین کا  آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے بعد ہونے والے پہلے ریاستی الیکشن دراصل مقبوضہ ریاست میں دس سال بعد ہونے والے پہلے ریاستی الیکشن ہیں۔ اس الیکشن میں کیا داؤ پر ہے اور کون کون کیا حاصل کر پائے گا، دنیا کی نظریں آج شروع ہونے والی ووٹنگ کے نتائج آنے تک مقبوضہ ریاست پر جمی رہیں گی۔

بھلے ہی دنیا کشمیر کا تنازعہ حل کروانے میں کوئی کردار ادا کرنے سے ہچکچاتی ہو لیکن اس متنازعہ علاقہ کے عوام کے رجحانات پر دنیا کی گہری نظر بہرحال رہتی ہے۔  2019 میں مودی سرکار نے انڈیا کے آئین میں کشمیر کے متنازعہ علاقہ کے متعلق خصوصی انتظامات پر مبنی آرٹیکل 370  کو آئین سے نکالا تو اس سے ریاست کو بھارت کی فیڈریشن مین حاصل کافی خود مختیاری آنِ واحد میں ختم ہو گئی تھی اور ریاست کی عملی حیثیت ایسی وفاقی اکائی کی ہو گئی تھی جہاں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے لئے ایک ملین فون تعینات تھی جسے کئی ڈریکونین قوانین کے تحت پبلک کو دبا کر رکھنے کے خوفناک اختیارات حاصل ہیں۔

نیم خود مختار حیثیت سے کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں طاقت ان سیاسی جماعتوں کے پاس رہتی تھی جو  بھارت کے وفاقی نظام کو تسلیم کرتی تھیں اور کشمیریوں کی آزادی کے متعلق امنگوں سے لاتعلق رہتی  تھیں۔ اب آرٹیکل  370 کے خاتمہ سے کشمیر کی اسمبلی کو کئی خصوصی اختیارات  سے محروم کر دیئے جانے کے بعد وفاق کی حامی سیاسی جماعتیں پہلی مرتبہ عوام کی عدالت میں آ رہی ہیں۔ دنیا اور خود بھارت میں لوگ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کے عوام ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔

ووٹ سے ری وولٹ

کشمیر کے عوام کیا چاہتے ہیں اس کا اظہار وہ آزادی کی تحریک میں لاکھوں زندگیاں نچھاور کر کے تو   تین دہائیوں سے کر رہے ہیں، کشمیر کے جو لوگ براہ راست یا بالواسطہ آزادی کی تحریک میں کردار ادا نہیں کرتے وہ بھی ہر دستیاب فورم پر کسی نہ کسی طرح یہ بتاتے رہتے ہیں کہ انہیں کشمیر پر بھارت کا تسلط منظور نہیں ہے۔ 
2019 میں نئی ​​دہلی کی جانب سے اس کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے بعد یہ کشمیر میں پہلے ریاستی انتخابات ہیں جن میں کشمیریوں کو داخلی خودمختاری سے محروم کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی تو الیکشن سے پہلے ہی ہارنے والے گروہ کی حیثیت سے آئسولیشن میں پڑی دکھائی دیتی ہے اور آزادی کی تحریک سے طویل عرصہ وابستہ رہنے والی جموں کشمیر کی جماعت اسلامی  طویل عرصہ بعد نئی قیادت کے ساتھ  ووٹ سے ری وولٹ کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔

90 لاکھ کشمیری ریاستی اسمبلی کے  الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹرڈ ہیں لیکن وہ گزشتہ چالیس سال سے روایتی طور پر بھارتی حکمرانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی اور وفاقی لوک سبھا کے الیکشن کا بائیکاٹ ک کرنے کے عادی رہے  ہیں۔ آزادی پسند سیاستدانوں اور عوام کے عمومی بائیکاٹ کی وجہ سے ریاستی اسمبلی کے الیکشن عموماً گہما گہمی کے بغیر ہوتے رہے جن میں بہت تھوڑے ٹرن آؤٹ کو معمول کی بات سمجھا جاتا رہا ہے  لیکن اس  مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں، کشمیری بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے سامنے آئے جسے تجزیہ کاروں نے 2019 میں محدود خود مختاری کو ختم کرنے کے بھارت کے فیصلے کے خلاف "احتجاجی ووٹ" قرار دیا۔ اب ریاستی الیکشن مین ظلم کا بدلہ ووٹ سے ایک نعرہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے عملی نتائج دیکھنے کے لئے تجزیہ کار آج ہونے والے الیکشن کے تینوں مرحلوں کی تکمیل اور نتائج سامنے ٓٓ آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

الیکشن کیمپین میں کشمیریوں کی بھرپور شرکت اور گرما گرم سیاسی ریلیوں، جلسوں سے ایک تاثر یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ  انتخابی عمل میں کشمیریوں کی بڑی شرکت کی بنیادی وجہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو کشمیر میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنے کی اجتماعی خواہش ہے۔ کان کو اِدھر سے پکڑیئے یا ادھر سے بات ایک ہی ہے، وہ یہ کہ  اب کشمیر کے آزادی پسندوں کی ایک نمایاں تعداد "ووٹ سے ری وولٹ" کرنے کی نہ صرف خواہشمند ہے بلکہ آج دن بھر ہونے والی پولنگ مین وہ اس کوشش کو میٹیریلائز کرنے کا  آغاز کر چکی ہے۔  ووٹ سے ریوولٹ کرنے کی یہ کوشش حقیقت میں تو چند ماہ پہلے لوک سبھا کے الیکشن سے ہی شروع ہوئی تھی، پارلیمانی انتخابات کے دوران ایسا  ہوا کہ عام کشمیریوں نے باہر نکل کر  آزادی کے لئے کام کرنے کے الزام مین جیلوں میں قید لوگوں کو ووٹ دیئے اور ان کو جیل سے براہ راست پارلیمنٹ میں پہنچا دیا۔

عام کشمیریوں کو بھارتی آئین میں تفویض کی گئی محدود تر  داخلی خود مختاری کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا لیکن اس معمولی نوعیت کی خود مخاری کے خاتمہ کے بعد پانچ سال کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر کی ڈیموگریفی کو تبدیل کرنے کی بچگانہ کوششوں سمیت کئی ایسی متنازعہ حرکتیں کیں کہ عام کشمیری اس معمولی خودمختاری کے چھن جانے سے  روز بروز زیادہ نالاں ہوتے گئے۔   کشمیری عوام کا یہ رجحان کوئی اچانک پیدا نہیں ہوا تھا، اسے الیکشن سے کافی پہلے ہی نوٹ کیا جا سکتا تھا۔ غالباً اس رجحان کو ہی دیکھ اور سمجھ کر نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی لوک سبھا کے الیکشن میں کشمیر کا میدان خالی چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ 

یہ انتخابات نئی دہلی میں مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی ھکومت  کی جانب سے خطے میں اپنے  مسلط کردہ منتظم کے اختیارات میں توسیع کے چند ہفتوں بعد  ہو رہے  ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کے اس حالیہ اقدام پر وفاق کی حمایت کرنے والی کشمیری جماعتوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدام نے کشمیر کی مقننہ کو "بے اختیار" کر دیا ہے۔

جولائی میں، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ریاستی مقننہ کے اختیارات کو ختم کیا اور لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات سونپے، جس میں پولیس پر کنٹرول، پبلک آرڈر اور عہدیداروں کے تبادلے اور تعیناتی شامل ہیں۔ نریندر مودی حکومت کے نئے احکامات کے بعد  ریاستی اسمبلی تعلیم، شادی، ٹیکس، جائیداد اور جنگلات کے بارے میں قانون نہیں بنا سکے گی۔نئی دہلی میں مقیم ایک ماہر تعلیم اور مصنف رادھا کمار نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو دیے گئے اختیارات "بالکل مضحکہ خیز" ہیں۔ ۔


کشمیر 77 سالوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا مرکز ہے۔ دونوں ہی  ریاستیں کشمیر کے  ایک حصے پر حکومت کرتے ہیں لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس لئے سارا کشمیر پاکستان کا حصہ بننا چاہئے۔ پاکستان اس کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1949 کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصوابِ رائے کے لئے غیر جانبدارانہ انتظام کے تحت پولنگ کروانا چاہتا ہے۔

پاکستان نے استصواب رائے کے ذریعہ کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ہو جانے تک کشمیر کے خطہ کو پاکستان کے آئین مین خصوصی حیثیت دے رکھی ہے، اس سے ملتا جلتا انتظام بھارت کے آئین میں بھی تھا جسے مودی سرکار نے پانچ سال پہلے ختم کر دیا۔ 

ریاستی الیکشن کا شیڈول
گزشتہ دس سال میں ہونے والے پہلےریاستی انتخابات آج بدھ 18 ستمبر سے شروع ہ و رہے ہیں۔ یہ  تین مرحلوں میں منعقد ہوں گے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کی ووٹنگ 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو ہوگی۔ نتائج کا اعلان 8 اکتوبر کو کیا جائے گا۔

الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے  ایجنڈا پر کیا ہے؟
کشمیر کی وفاق پرست  سیاسی جماعتوں نے  آج سے شروع ہونے والے ریاستی الیکشن مین ووٹ لینے کے لئے کشمیر کو  "مکمل ریاست"  کا درجہ دلوانے اور  اس کے ساتھ اس کی آرٹیکل 370 والی یا اس سے ملتی جلتی خصوصی حیثیت کی بحال کروانے کا وعدہ کیا ہے۔

وفاق پرستوں  کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی اسمبلی اور حکومت کو کمزور کر کے میونسپلٹی بنا دیا گیا ہے، سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ آج کل کہتے ہیں کہ  نئے وزیر اعلیٰ کو نئی دہلی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر سے "ایک چپراسی  کی تقرری کے لیے بھیک مانگنی پڑے گی"۔

پیر کو دی پرنٹ ویب سائٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے "کشمیر کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں ہم سب دہلی کے سیاسی قیدی ہیں"۔

اب سیاسی تجزیہ کار یہ توقع کر رہے ہیں کہ  نئی ریاستی اسمبلی اور منتخب ریاستی حکومت خواہ کسی کی بھی ہو وہ انسانی حقوق کے مسائل پر اور بھارت کی وفاقی حکومت اور اداروں کی جبر کی پالیسیوں پر  ماضی کی نسبت کہیں زیادہ  شور مچائیں گے۔

کشمیری نوجوانوں کی قید، جن میں سے بہت سے دور ہندوستان کی جیلوں میں ہیں، بھی ایک بڑا  الیکشن ایشو بنی رہی ہے۔ اس کے ساتھ  کئی مقامی چیلنجز جیسے منشیات کے استعمال اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی لعنت پر بھی سیاسی جماعتوں کی توجہ رہی۔

ریاست کی سب سے پرانی جماعت نیشنل کانفرنس کی ریلی میں شریک تابندہ عارف نے الجزیرہ کو بتایا، "میں ایک طالب علم ہوں، میں اس امید پر ووٹ دوں گا کہ اس سے ملازمت کا منظر نامہ بدل جائے گا یا جیلوں میں بند اتنے لوگوں کو رہا کرنے میں مدد ملے گی۔" "پچھلے پانچ سالوں میں ہر ایک نے اتنا نقصان اٹھایا ہے، شاید حالات بدل جائیں۔"

کچھ ووٹر، ماضی میں اپنے وعدوں کو نبھانے میں وفاق پرست سیاستدانوں کی ناکامی سے مایوس ہیں ان کی توجہ کا مرکز نئی سیاسی جماعت اور جماعت اسلامی دونوں ہی ہیں جو وفاق کی بالادستی کو زیادہ دلیری کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ کشمیریوں کی بھاری اکثریت ایسی ہے جن کو یقین ہے کہ "صرف ایک معجزہ ہی ہماری حالت بدل سکتا ہے۔"

نئی حلقہ بندیوں کے اثرات

رئیاستی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھارت پر طویل عرصہ سے قابض حکومت نے ریاستی اداروں کی مدد سے من چاہا کھیل کھیلا اور ریاستی اسمبلی کی نئی حلقہ بندیوں کے نام پر جموں میں ہندو اکثریتی علاقوں میں مزید  حلقے بنوا دیئے۔ ریاستی اسمبلی میں کل نشستیں 87 سے بڑھ کر 90 ہوگئیں، لیکن نا انصافی یہ ہوئی کہ جموں کا اسمبلی میں حصہ 37 سے بڑھ کر 43 تک پہنچ گیا جبکہ وادی کشمیر میں صرف ایک نشست بڑھ کر 47 ہوگئی۔ اس بندر بانٹ پر وفاق پرست کشمیری سب سے زیادہ ناخوش ہیں جن کی حمایت پہلے ہی وادی میں کم ہو رہی ہے۔

جموں کے حق میں نمائندگی کو کم کرنے کے لیے اس اقدام پر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی، جسے مقننہ میں 48 فیصد نشستیں دی گئی ہیں، حالانکہ یہ آبادی کا 44 فیصد ہے۔

 ریاست کی انتخابی سیاست میں نیا فیکٹر  "آزادی پسند" سیاست دان بھی نئی حلقہ بندیوں سے ناخوش ہیں تاہم  وہ اس الیکشن میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے زیادہ تر صرف وادی کے حلقوں میں ہی سرگرم ہیں۔ ان کا جموں میں اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف کانگرس اس پوزیشن میں ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد جموں کے انتخابی حلقوں میں  اپنی سپورٹ بڑھا سکے۔ اس کا دارو مدار بھارتیہ جنتا پارٹی  کی گزشتہ کئی سال کی پالیسیوں سے متعلق جموں کے عوام کے  ردعمل پر ہے جس کا اظہار  وہ  پولنگ نوتھ جا کر ہی کریں گے۔ 

انتخابات کیوں اہم ہیں؟
2018 میں آخری منتخب حکومت کے گرنے کے بعد سے مقامی مقننہ کے لیے یہ خطے کا پہلا انتخاب ہے۔ تب سے کشمیر پر براہ راست نئی دہلی پر قابض بھارتیہ جنتا پارٹی  کی بالواسطہ حکومت ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کی اہمیت بنیادی طور پر اس چیز میں مضمر ہے جس کی یہ علامت ہے۔

اس الیکشن کا نئی دہلی مین حکومت پر کوئی اثر نہین ہو گا لیکن ریاستی اسمبلی کے الیکشن نے خاص  اہمیت اختیار کر لی ہے کہ یہ  آرٹیکل 370 پر ایک طرح کے ریفرنڈم میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا انعقاد نئی دہلی کے لیے یہ ظاہر کرنے کے لیے بھی اہم ہے کہ 2019 کی متنازعہ تبدیلیوں کے بعد خطے میں "معمول کی سیاسی زندگی" لوٹ آئی ہے۔

ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں اہم کھلاڑی کون ہیں؟
نیشنل کانفرنس (NC) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) لوک سبھا الیکشن میں دھچکے لگنے کے باوجود ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں  بڑے سیاسی کھلاڑی ہیں۔

فاروق عبداللہ کی قیادت میں NC، کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر پچھلی سات دہائیوں میں سے زیادہ تر حاوی رہی ہے۔ عبداللہ خاندان نے بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان سے بھی قریبی تعلقات رکھے ہیں، جو حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کی قیادت کرتی ہے۔

این سی کانگریس پارٹی کے ساتھ اتحاد میں یہ الیکشن لڑ رہی ہے۔

پارٹی نے ہندوستان کی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات میں وادی کشمیر کی تین میں سے دو نشستیں جیتی تھیں، لیکن اس کے سینئر رہنما عمر عبداللہ آزاد امیدوار انجینئر رشید سے ہار گئے۔

پی ڈی پی کی قیادت محبوبہ مفتی کر رہی ہیں، جو 2016 میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں خطے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنی تھیں۔ محبوبہ نے 2002 میں اقتدار حاصل کیا اور 2014 کے انتخابات میں پی ڈی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ لیکن 2014 میں بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں حصہ لینے کے پارٹی کے فیصلے نے کشمیریوں کو ناراض کیا، جو خطے کی موجودہ سیاسی بحران کے لیے ہندو قوم پرست جماعت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اس کی عکاسی پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ہوتی ہے، جس میں محبوبہ مفتی اننت ناگ-راجوری حلقہ سے ہار گئیں۔  اس بار محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی خاندان کے آبائی حلقہ سری گفوارہ بیبہاڑہ سے  الیکشن لڑ رہی ہے۔

NC نے خطے کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے اور پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کی منسوخی کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا ہے، یہ ایک متنازعہ قانون ہے جو لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پارٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جیلوں میں بند تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی مانگے گی اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا آغاز کرے گی۔

وفاق پرست سیاسی جماعتوں سے زیادہ اس الیکشن میں توجہ ان سیاسی جماعتوں پر دی جا رہی ہے جن پر  آزادی پسند، علیحدگی پسند کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انجینئر رشید کی زیر قیادت کالعدم "علیحدگی پسند" گروپ جماعت اسلامی (JeI) اور عوامی اتحاد پارٹی (AIP) کا انتخابی میدان میں داخلہ ممکنہ طور پر انتخابی ریاضی کو متاثر کر سکتا ہے۔

جماعت اسلامی تین دہائیوں تک ریاست کی اسمبلی سے لاتعلق رہی، اب جماعت کی ریاستی الیکشن میں شرکت کو کچھ لوگ ہندوستانی ریاست کے لیے ایک پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں، جو دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ ایسے گروہوں کو ضم کر چکے ہیں جو کبھی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق یا اس کی آزادی کی وکالت کرتے تھے۔

 بی جے پی انتخابات میں کہاں کھڑی ہے؟
جموں کے ہندو اکثریتی جنوبی علاقے میں بی جے پی بظاہر مضبوط ہے لیکن وادی مین بھارتیہ جنتا پارٹی کی دال اب تک نہیں گل سکی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے خطے سے "دہشت گردی" کا صفایا کر دیا  اور آرٹیکل 370 ختم کر کے ریاست میں نئی سرمایہ کاری لانے، جائیدادوں کی قیمتیں بڑھانے اور روزگار کے مواقع بڑھانے کی کامیابیاں حاصل کیں۔ 

بھارتیہ جنتا پارٹی کے دعووں کو اس کے ناقد حقائق کے برعکس گردانتے ہیں۔  جموں کا علاقہ  جہاں وایتی طور پر مسلح حملوں کے واقعات نہیں ہوتے،  وہاں بھی اب  اس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2021 کے بعد سے، متنازعہ علاقے میں سیکورٹی فورسز کے 124 اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی، جن میں سے کم از کم 51 جموں میں ہوئی ہیں۔

14 ستمبر کو جموں کے ڈوڈہ ضلع میں ایک سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جو پتھر کبھی پولیس اور فوج پر حملہ کرنے کے لیے اٹھائے جاتے تھے اب وہ نئے جموں و کشمیر کی تعمیر کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ "یہ ترقی کا ایک نیا دور ہے۔ یہاں دہشت گردی اپنے آخری مرحلے میں ہے۔‘‘

لیکن اجس دن مودی نے یہ دعویٰ کیا، سی دن، قریبی ضلع کشتواڑ میں آزادی پسند باغیوں کے ہاتھوں دو ہندوستانی فوجی مارے گئے۔

اگرچہ بی جے پی کو  وادیِ کشمیر میں جیتنے کی امید نہیں ہے، جہاں اس نے 19 امیدوار کھڑے کیے ہیں، لیکن اسے جموں میں زیادہ تر سیٹیں جیتنے کی امید ہے، جہاں وہ تمام 43 سیٹوں پر مقابلہ کر رہی ہے۔