حاشر احسن : وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ قانون سازی کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں، وکلاء بہتر جانتے ہیں ۔ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے، اس نے دو تہائی سے منظور ہونا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے وکلاء نمائندہ تنظیموں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشکور ہوں کہ انہوں نے موقع دیا۔ فروری کے آخر میں پیپلز پارٹی سے قانون سازی سے متعلق مذاکرات کیے، میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی ریفارمز کا مطالبہ سامنے آیا، عدالتی ریفارمز ہمارے منشور کا بھی حصہ تھے، پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نامکمل ایجنڈے پر کام کرنے کا کہا ۔ 24 مئی 2024 کو ملک کے پانچوں بار کونسلز کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں، وکلاء بہتر جانتے ہیں ۔ آج بھی جو پیکج گردش کر رہا ہے، ڈرافٹ عارضی ہوتا ہے، ڈرافٹ اس وقت تک فائنل نہیں ہوتا جب تک کابینہ کی منظوری نہ مل جائے، پھر بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے، پھر معاملہ کمیٹی میں بھی جا سکتا ہے، یہ معاملہ آئینی ترمیم کا ہے، اس نے دو تہائی سے منظور ہونا ہے ۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی، بار کونسلز کی تجاویز اور سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو سامنے رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں عسکری قیادت سے کہا آپ دہشتگردی کے خاتمے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ عسکری قیادت نے کہا کہ ملک کیلئے جانیں دینے والوں کے گھر بار نہیں ہوتے؟ ، عسکری قیادت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا بھی حوالہ دیا ، عسکری قیادت نے کہا راہ حق کے شہیدوں کے ترانے پر آنسو بہانے سے ہمارے زخم خشک نہیں ہو سکتے ۔ ایپکس کمیٹی میں عسکری قیادت کی کافی سخت گفتگو تھی ۔
وزیر قانون نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی 2006 میں آیا، چارٹر آف ڈیموکریسی میں آئینی عدالت کے قیام کا کہا گیا، آئینی عدالت کیا ہے؟ آئینی عدالت ایک الگ سے عدالت ہے جو آئینی آرٹیکلز کے تحت اختیارات استعمال کرے، ہمارے ذہن میں خاکہ یہ ہے کہ آئینی عدالت کے 7 یا 8 ججز ہوں، آئینی عدالت میں تمام صوبوں اور اسلام آباد سے نمائندگی شامل ہو ۔