سٹی42: اسرائیل نے کہا ہے کہ شہریوں کو ان کے گھروں میں واپس جانے کے قابل بنانے کے لئے ملک کے شمال میں حزب اللہ کے حملوں کو روکنا اب جنگ کا آفیشل مقصد ہے۔ منگل کو یروشلیم میں اسرائیل کے سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل لبنان میں ایک وسیع تر فوجی کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے.
اسرائیلی حکام پہلے بھی بارہا وارننگ دے چکے ہیں کہ وہ غزہ میں اسرائیل-حماس جنگ کے آغاز کے فوراً بعد حزب اللہ کی طرف سے تقریباً روزانہ حملوں کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ حززب اللہ کے حملوں کے جواب میں اسرائیل لبنان پر باقاعدگی سے فضائی حملے کرتا رہا ہے اور اسرائیلی فورسز نے حزب اللہ کے کئی سینئر کمانڈروں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔
اب گزشتہ ایک ماہ سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کے حملے روکنے کے لئے لبنان مین حزب اللہ کے خلاف مکمل جنگ کرنے جا رہا ہے۔ کل منگل کے روز پھر یہ ہوا کہ لبنان مین حزب اللہ کے ہزاروں کارکن اچانک اپنے پیجر بلاسٹ ہو جانے سے زخمی ہونا شروع ہو گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے تک لبنان کے طول و عرض میں حزب اللہ کے کارکنوں کے پاس موجود مواصلاتی آلہ پیجر دھماکے سے پھٹ جانے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے۔ پیجر پھٹنے سے زخمی ہونے والوں میں بیروت میں ایران کے سفیر بھ یشامل تھے، ایران کی ایمبیسی کے دو دوسرے اہلکار بھی پیجر پھٹنے سے زخمی ہوئے۔ پیجر پھٹنے کے واقعات میں کل منگل کے روز 2750 افراد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے۔
اوپر تصویر میں شمالی اسرائیل میں گلیلی کے علاقہ میں کریات شمونا شہر کے قریب اسرائیل کا ائیر ڈیفینس سسٹم آئرن ڈوم جنوبی لبنان سے فائرکئے گئے ایک میزائل کو فضا میں ناکارہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
منگل کو جس وقت لبنان میں ہزاروں پیجر پھٹنے کے دھماکوں سے سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی اس وقت یروشلیم میں اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے بیان نے ایک ایسے وقت میں سخت موقف کا اشارہ دیا جب اسرائیلی رہنماؤں نے اپنی وارننگز میں اضافہ کیا ہے۔ انٹرنیشنل نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ سخت موقف بڑی حد تک علامتی بھی دکھائی دیتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ حزب اللہ اور لبنان کے متعلق اسرائیل کی پالیسی میں فوری تبدیلی نہ آئے۔
اوپر تصویر میں شمالی اسرائیل میں لبنان کی سرحد کے قریب واقع کریات شمونا کے شہر میں بچوں کا ایک پلے گراؤنڈ ، اس شہر پر حزب اللہ کے حملوں کے مسلسل خوف کے سبب گھروں سے باہر بچوں کی سرگرمیوں مین نمایاں کمی ہوئی ہے۔ فوٹو بذریعہ گوگل