امانت گشکوری: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کیخلاف کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ججز سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہمیں وہ مان لینی چاہئیں، ہماری انا بہت بڑی بن گئی ہے،ہم نے مارشل لاکی توثیق کی، آرٹیکل 184 تین کے بارے پبلک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا، تین رکنی بنچ نے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم کیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ریکوڈک کیس کے بعد ملک کو چھ اعشاریہ پانچ ارب کا جرمانہ ہوا،یہ ججز کی سوچ تھی اور اس کی درستگی نہیں ہوئی،ہاں ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ذوالفقار بھٹو کیس میں بھی غلطی ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کیخلاف کیس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، جہاں تک عدلیہ کی آزادی کا تعلق ہے تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عدلیہ گورنر جنرل کی منظوری سے قوانین بناتی تھی، آئین پاکستان 1956 کے تحت عدلیہ کے ضوابط صدر کی منظوری سے مشروط تھے،قانون صرف ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ قانون عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے،قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے پاس ہی رکھے گئے ہیں،یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلق ہے۔اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ 1956 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے،1973 کے آئین میں عدلیہ کو آزاد بنایا گیا ہے، 1973 کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا،میں بتاو¿ں گا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے،کیا بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کے معاملے پر پہلے ہائیکورٹس میں نہیں جانا چاہیے تھا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ قانون سپریم کورٹ کی پاورز سے متعلق ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے معاملات کو ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایک اور مقدمے میں کہہ چکا ہوں کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے معاملات سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آپ کی رائے سے متضاد ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ فل کورٹ کے سامنے کیس ہے اس لئے مدعا رکھ رہا ہوں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ ہم صحیح اور غلط کی بات نہیں کر رہے،کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے میں بنیادی حقوق کی نفی یا خلاف ورزی نہیں دیکھ رہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ کیس کسی بھی طرح کے حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ عدالت کیلئے یہ واضح ہونا ہوتا ہے کہ کوئی قانون مفاد عامہ کیخلاف ہے یا نہیں،جب ایک قانون ہے ہی مفاد عامہ کے حق میں تو اس کو عدالت کیسے دیکھے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار تھا یا نہیں یہ دیکھنا ہوگا،کیا آرٹیکل 184 تین کے اجزا کو پورا کیا گیا یا نہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ جب صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا صوابدیدی اختیار تھا؟کیا یہ صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈوائس پرمنظوری ہوتی تھی،آپ نے درخواست نا قابل سماعت نہ ہونے پر بات شروع کی تھی وہ مکمل کریں،آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نقاط پر بات شروع کر دی،ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے،یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے،ہمارے پاس اس معاملے پر ہائیکورٹ سے کم اختیارات ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنے تابع کرتا ہے، اگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں خلاف آئین قانون سازی کریں تو کیا اس کو عوامی مفاد میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ کسی قانون سازی کو مفاد عامہ میں کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، بنیادی حقوق کے نفاذ اور ان کی خلاف ورزی پر قانون کالعدم ہوتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کیا قانون سازی کا اختیار مفاد عامہ میں نہیں ہوتا؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 184/3 پڑھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں،184/3 ہمیں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ ججز کمیٹی میں تین میں سے دو سمجھتے ہیں کہ نوٹس ہونا چاہیے تو کیا انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے؟کیا سائل فیصلہ کر سکتا ہے کہ مقدمہ کون سنے یا کمیٹی ہی فیصلہ کرے گی؟چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مضحکہ خیز درخواستوں پر اعتراض عائد کر کے واپس کیا جاتا ہے تو واپس اپیل آجاتی ہے،جب اسسٹنٹ رجسٹرار مقدمہ واپس کرے اور جج بھی اپیل خارج کر دے تو معاملہ ختم، تین ججز کی کمیٹی کے اختیار استعمال کرنے سے کسی کے کوئی حقوق نہیں چھن رہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پارلیمنٹ نے مجبور ہو کر یہ قانون سازی کی تھی،بہت اچھا کام ہے پارلیمنٹ نہ کرتی تو آپ کر لیتے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ 43 سال سے یہ قانون نہیں بنا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی کیونکہ ہم 43 سال سے سو رہے تھے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئندہ پارلیمنٹ اگر چیف جسٹس کو اختیار واپس دے دے تو کیا صورتحال ہوگی؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ مفروضوں پر بات نہیں کرینگے، جب معاملہ سامنے آیا تو دیکھیں گے،لوگوں کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو رہے اس بات کی تکلیف ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اصول کی بات سمجھنے کیلئے سوال کر رہا ہوں، کسی تنازعہ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پارلیمان چاہے تو چیف جسٹس کا اختیار بحال کر سکتی ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا ہم سائل کے سامنے جوابدہ نہیں،سائلین کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کمیٹی از خود نوٹس کے اختیار کا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ عدالت تو اپنی مرضی پر ہی چل رہی ہے، قانون سازی کے بعد بھی اختیار تو عدالت کے پاس ہی رکھا گیا ہے،پھر یہ قانون سازی کرنے کا مقصد کیا تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام عدالتی سوالات کا تحریری جواب بھی دوں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ایکٹ بننے سے پہلے اس کو معطل کر دیا گیا،ہم تسلیم تو کر رہے تھے کہ یہ ایکٹ بن رہا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمنٹ کیا یہ بھی قانون بناسکتی ہے کہ فل کورٹ بیٹھ ہی نہیں سکتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ججز سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہمیں وہ مان لینی چاہئیں، ہماری انا بہت بڑی بن گئی ہے،ہم نے مارشل لاکی توثیق کی، آرٹیکل 184 تین کے بارے پبلک رائے یہ بھی ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا، تین رکنی بنچ نے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم کیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ریکوڈک کیس کے بعد ملک کو چھ اعشاریہ پانچ ارب کا جرمانہ ہوا،یہ ججز کی سوچ تھی اور اس کی درستگی نہیں ہوئی،ہاں ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ذوالفقار بھٹو کیس میں بھی غلطی ہوئی تھی۔