امانت گشکوری : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ ئے اور کہا کہ یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق کیس کی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں تک عدلیہ کی آزادی کا تعلق ہے تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عدلیہ گورنر جنرل کی منظوری سے قوانین بناتی تھی، آئین پاکستان 1956 کے تحت عدلیہ کے ضوابط صدر کی منظوری سے مشروط تھے، قانون صرف ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ قانون عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے، قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے پاس ہی رکھے گئے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلق ہے، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا اور کہا کہ 1956 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو آزاد بنایا گیا ہے، 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کے معاملے پر پہلے ہائیکورٹس میں نہیں جانا چاہیے تھا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانون سپریم کورٹ کی پاورز سے متعلق ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے معاملات کو ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک اور مقدمے میں کہہ چکا ہوں کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے معاملات سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے،
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آپ کی رائے سے متضاد ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کے سامنے کیس ہے اس لیے مدعا رکھ رہا ہوں۔
جسٹس یحیی آفریدی نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم صحیح اور غلط کی بات نہیں کر رہے، کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے میں بنیادی حقوق کی نفی یا خلاف ورزی نہیں دیکھ رہے،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ کیس کسی بھی طرح کے حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کیلئے یہ واضح ہونا ہوتا ہے کہ کوئی قانون مفاد عامہ کیخلاف ہے یا نہیں،جب ایک قانون ہے ہی مفاد عامہ کے حق میں تو اس کو عدالت کیسے دیکھے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار تھا یا نہیں یہ دیکھنا ہوگا،کیا آرٹیکل 184 تین کے اجزاء کو پورا کیا گیا یا نہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا۔