بیٹی کے قتل کے الزام میں  21 سال سے قید شخص  کی سزائے موت ڈیڑھ گھنٹہ قبل روک دی گئی 

18 Oct, 2024 | 10:47 PM

ویب ڈیسک:امریکہ کی ریاست ٹیکساس   کے جج نے ایک ایسے شخص کی سزائے موت کو ڈیڑھ گھنٹے  قبل روک دیا جس کو اپنی ہی بیٹی کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنا دی گئی تھی

رابر ٹ رابرسن  کو 2003 میں  اپنی  بیٹی  نکی  کرٹس کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ کیونکہ نکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت تشدد   کی   وجہ سے  ہوئی تھی ۔ نکی کرٹس دو برس  کی تھی جب   وہ اپنے ہی والد کے بازووں میں بے ہوش ہوگئی تھی اور اس کو ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ  اسی بے ہوشی کی حالت میں ہی دم توڑ گئی تھی ۔ 

ڈاکٹروں کے مطابق نکی کی موت کی وجہ دماغ کی ایک سنگین چوٹ ’شیکن بے بی سنڈروم‘ (Shaken baby syndrome) بنی، جو دو سال سے کم عمر کے بچے کو زبردستی بہت زیادہ ہلانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس سے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

عدالت میں نکی  کرٹس کی موت کا مقدمہ چلا تو  وکلا نے  جیوری کو یقین دلا دیا کہ رابرسن ہی  نکی کرٹس کی موت کے ذمہ دار ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ نکی کی موت کی تحقیقات کرنے والے برائن  وارٹن نے  مقدمے کی سماعت کے دوران  عدالت کو بتایا کہ رابرٹ نے اپنی بیٹی کی موت پر کوئی خاص ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی کسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا

جبکہ رابرسن  اور اس کے وکلا نے عدالت میں یہ موقف اپنا رکھا تھاکہ نکی  کرٹس کی موت نمونیے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔فیصلہ سنایا جاچکا تھا ۔ رابرسن کو سزائے موت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا تھا ۔ 2003 سے 2024 یعنی 21 برس تک  رابرسن  سزائے موت کے قیدی کے طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا ۔ جمعرات کو  مقامی وقت کے مطابق چھ بجے رابرسن کو سزائے موت  دی جانی تھی ۔ لیکن  صرف ڈیڑھ  گھنٹہ قبل  ٹریوس کاونٹی کے جج نے  رابرسن  کو عارضی طورپر  سٹے دیتے ہوئے  سزائے موت  روک دی تاکہ اگلے ہفتے رابرسن  عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروا سکے  کیونکہ   ٹیکساس کی پارلیمان نے رابرسن کی پیشی کے حوالے سے ایک درخواست  دائر کردی تھی اور امید ظاہر کی کہ ان کو 21 اکتوبر ایک عدالتی سماعت میں بھیجنا پڑے گا۔ 

 ایک تنظیم  جس میں  ٹیکساس کے 86 ارکانِ پارلیمان، درجنوں طبی سائنسی ماہرین، وکلا، مصنف جان گرشم اور ایسے رپبلکنز بھی شامل ہیں، جو سزائے موت کے حق میں ہیں، انھوں نے بھی رابرسن کو معاف کرنے کی درخواست کی ہے ۔ امریکی میڈیا کے مطابق جج کی جانب سے ان کی سزائے موت کو روکنے کے بعد رابرسن نے حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے حمایتیوں کا شکریہ ادا کیا۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ  رابرسن کو سزا سائنس کے فرسودہ عقائد کی بنیاد پر دی گئی تھی ۔ اور حکام کو بھی شیکن  بے بی  سنڈروم کے حوالے سے زیادہ معلومات نہ تھیں  ایک مصنف نے صحافیوں کو بتایا کہ ،رابرٹ   کے کیس میں کوئی جرم نہیں ہوا تھا اور ہم ایک بے گناہ شخص کو قتل کرنے لگے تھے ۔

رابرسن  کے   وکلا کا کہنا ہے کہ  رابرٹ  رابرسن میں آٹزم  کی تشخیص نکی کرسٹن  کی موت سے قبل نہیں ہوئی تھی اس لیے پولیس اور میڈیکل سٹاف ان کی کیفیت کو سمجھ نہیں پایا اور وہ اپنے جذبات کا اظہار اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں کرسکے تھے ۔ 

نکی کرسٹن کی موت کے وقت رابرسن  محض 35 برس کے تھے اور سنگل  پیرنٹ کے طور پر 2 ماہ قبل ہی انہوں نے بیٹی کی کسٹڈی لی تھی ۔ نکی  کی موت کے ایک برس بعد ان کو سزائے موت سنا دی گئی اور جیل میں 15 برس گزارنے کے بعد رابرسن میں آٹزم کی تشخیص ہوئی تھی ۔

مزیدخبریں