ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

 رات گئے وزیراعظم اور بلاول کی کوشش ناکام؛ مولانا کے مرغے کی وہی ایک ٹانگ

Molana Fazalur Rahman, City42, Bilawal Bhutto, Prime minister Shahbaz
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی قیادت کے اپنے اصولی نکتہ نظر میں ہر ممکن لچک لانے کے باوجود مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم پر  تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ رات گئے مولانا فضل الرحمان کے گھر پر وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھتو کے مولانا کے ساتھ مذاکرات کے اختتام پر یہ اطلاعات آئیں کہ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بدھ کے روز مولانا فضل الرحمان نے جاتی امرا میں میاں نواز شریف کے عشائیہ کے دوران دو مرتبہ مذاکراتی اجلاسوں کے بعد کچھ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کے کیمروں کے سامنے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ وہ عدالتی اصلاحات کے ضمن میں حکومتی اتحاف کے ساتھ اتفاق رائے رکھتے ہیں، دیگر آئینی ترامیم پر بھی اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں ، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی سب بارہ بجے مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ اپنے گھر پر نیوز کانفرنس کی اور ایک بار پھر حکومت پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تعاون نہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ ان دھمکیوں کے نیوز چینلز سے نشر ہونے کے بعد پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور ان کے کچھ دیر بعد پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف خود مولانا فضل الرحمان کے گھر پر پہنچے اور ان سے  آئینی ترامیم کے حوالے سے مذاکرات کئے۔ کئی گھنٹے کے بعد یہ اطلاعات آئی ہیں کہ "مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکی"، وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ سے مایوس واپس چلے گئے۔ 

جے یو آئی کے امیر کے قریبی ذرائع نے میڈیا کو بتایا آئینی ترامیم پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔

نصف شب کے بعد  وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پہنچے تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی مولانا کے گھر پر گئے تھے۔

ذرائع کے مطابق سیاسی رہنماؤں کے درمیان مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق بات چیت ہوئی لیکن اس پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔


اس س آخر شب کی ملاقات سے پہلے  پی ٹی آئی رہنماوں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے  یہ نیا مؤقف اختیار کر لیا تھا کہ آئینی ترامیم پر پارلیمانی پارٹیوں میں اتفاق رائے کے لئے بنائی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں کو  بھی شامل کرنا چاہیے،

مولانا کا  بظاہر یہ کہنا تھا کہ ہم پوری فراخدلی سے حکومت کے ساتھ بیٹھے ہیں، کچھ چیزیں ابھی بھی مشاورت کے قابل ہیں، ترمیم متفقہ ہونی چاہیے، تمام اپوزیشن جماعتوں کو آن بورڈ لیا جائے۔ لیکن مولانا نے نیوز کیمروں کے سامنے یہ باتیں کہنے کے فوراً بعد حکومت کو  بدمعاشی کرنے کا ملزم ٹھہراتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ بدمعاشی کرو گے تو ہم بھی بدمعاشی کریں گے۔  انہوں نے الزام لگایا تھا کہ  جمعیت علما اسلام کے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، انہوں نے بعض ارکان کے اغوا کا بھی الزام لگایا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر صبح تک حکومت باز نہ آئی تو وہ آئینی ترمیم کے معاملہ پر تعاون نہیں کریں گے۔ 

مولانا فضل الرحمان کی اس نیوز کانفرنس کے بعد بلاول  بھٹو اور وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے گھر پر جا کر ان سے بات چیت کی جس کے اختتام پر مولانا کے قریبی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ "مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکی"

دوسری جانب جے یو آئی کے اندر فارورڈ بلاک بننے کی بھی اطلاعات ہیں جس کی ترجمان جے یو آئی نے تردید کردی ہے۔