ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیا پاکستان اپارٹمنٹس منصوبے کی تعمیر میں حائل بڑی رکاوٹ دور

نیا پاکستان اپارٹمنٹس منصوبے کی تعمیر میں حائل بڑی رکاوٹ دور
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

در نایاب: شہریوں کے لئے اچھی خبر، محکمہ ماحولیات نے نیا پاکستان اپارٹمنٹس منصوبے کی تعمیر کو ماحول دوست قرار دے دیا، ایل ڈی اے کو تعمیر شروع کرنے کیلئے محکمہ ماحولیات نے مشروط این او سی جاری کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایل ڈی اے کو نیا پاکستان اپارٹمنٹس کی تعمیر شروع کرنے کیلئے محکمہ ماحولیات کی جانب سے این او سی موصول ہوگیا ہے۔ محکمہ ماحولیات نے اپارٹمنٹس کی تعمیر کے لئے سخت شرائط بھی عائد کردی ہیں۔ اپارٹمنٹس کی تعمیر کے دوران درختوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایل ڈی اے کو دس ہزار نئے درخت لگانے کا بھی پابند بنا دیا گیا ہے۔ 

ایل ڈی اے کو اپارٹمنٹس منصوبے میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی بھی لازمی ہدایت کردی گئی ہے۔ ایل ڈی اے کو کنسٹرکشن کے دوران ماحولیات کے باقاعدہ ایس او پیز اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایل ڈی اے ہلوکی کے مقام میں پہلے فیز میں چار ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کرے گا۔ 

اپارٹمنٹس کیلئے مارگیج فنانسنگ، ٹینڈرز جیسے اہم مراحل طے کئے جاچکے ہیں۔ ایل ڈی اے کو محکمہ ماحولیات سے این او سی درکار تھا۔ اس سے قبل محکمہ ماحولیات نے ایل ڈی اے کی درخواست پر اعتراض لگا واپس کردی تھی۔

دوسری جانب وزیراعظم نے ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت مزدور اور دیہاڑی دار طبقے میں رہائشی فلیٹس اور مکانات کی تقسیم کردی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 11 سال سے زیر التواء رہائشی پراجیکٹ مکمل ہوا۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے تحت 1000 سے زائد فلیٹس اور 500 مکانات تیار ہوئے۔ مزدور اور محنت کشوں کو مورٹگیج کی بنیاد پر اپنی چھت فراہم کی جا رہی ہے۔

تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت بیواؤں اور معذوروں سمیت محنت کشوں کو گھروں کی تقسیم کی جا رہی ہے۔  5 لاکھ روپے سے کم آمدنی والے افراد کو فلیٹس اور گھروں کے مالکانہ حقوق دئیے جائیں گے، ورکرز ویلفیئر فنڈ کے تحت 3 ہزار ورکرز نے رجسٹریشن کروائی ہے، قرعہ اندازی کے ذریعے 1500 ورکرز میں فلیٹس اور گھر تقسیم کیے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ورکرز کلاس کیلئے رقم کی ادائیگی کی معمولی قسط اور آسان شرائط کو بھی یقینی بنایا گیا ہے، سابقہ ادوار میں حکومتی عدم دلچسپی کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا جبکہ فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث کنٹریکٹر نے منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔