عید پر قربانی کرنے کی کوشش، پنجاب میں کئی احمدی گرفتار

18 Jun, 2024 | 06:04 PM

سٹی42:  گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین اور شیخورپورہ سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو قربانی سے روکنے کے لیے تھانوں میں درخواستیں دائر  کی گئیں۔  

  جماعت احمدیہ کے ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ  پنجاب پولیس عیدِ قربان کے موقع پر احمدیوں کو مسلسل ہراساں کر رہی ہے۔  پولیس نے کئی اضلاع سے احمدی کمیونٹی کے افراد کو ان کے جانوروں سمیت حراست میں لے لیا ہے۔ 
آج عید کے دوسرے روز بھی مسلمان جانوروں کی قربانی کی مذہبی فرض ادا کر رہے ہیں جبکہ پنجاب میں احمدیہ کمیونٹی کو  مسلمانوں کی طرح جانوروں کی قربانی کرنے  کی وجہ سے پولیس تھانوں میں مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔

پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین، شیخورپورہ، فیصل آباد، وزیر آباد اور حافظ آباد سمیت دیگر اضلاع میں احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو قربانی سے روکنے کے لیے تھانوں میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو جانوروں کی قربانی کرنے کی صورت میں توہینِ مذہب کے تحت مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں جب کہ بعض علاقوں میں احمدی افراد کے ساتھ ساتھ ان کے قربانی کے جانوروں (بکروں) کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا ۔

ایک غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹ کے مطابق  احمدیہ کمیونٹی کو  مسلمانوں کی طرح عید الاضحٰٰ پر قربانی کرنے سے روکنے کے لیے تھانوں میں دائر بیشتر  درخواستیں ایک مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مقامی رہنماؤں نے جمع کرائی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹ کے مطابق جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے الزام عائد کیا ہے کہ کچھ مذہبی عناصر کے دباؤ پر پنجاب پولیس عیدِ  الاضحیٰ کے موقع پر احمدیوں کو مسلسل ہراساں کر رہی ہے اور اور انہیں "چار دیواری کے اندر قربانی" کرنے سے روک رہی ہے۔

عامر محمود  نے کہا کہ مختلف اضلاع میں احمدیوں کو تھانوں میں بلا کر کہا جا رہا ہے کہ قربانی کی صورت میں انہیں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، لہذا وہ اپنی سلامتی کی خاطر قربانی  نہ کریں۔

عامر محمود نے الزام لگایا کہ سیالکوٹ کے علاقے موترہ میں پانچ احمدیوں، لاہور، فیصل آباد، گوجرنوالہ اور تحصیل ڈسکہ میں ایک ایک احمدی کو ان کے بکروں سمیت پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔

 جماعت احمدیہ کے مطابق عید الاضحیٰ کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنے جیسے اقدامات آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20 اور سپریم کورٹ کے 12 جنوری 2022 کو دیے گئے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ ان کے مطابق  سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے [Cr1.P.916-L/2021] میں قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔

تاہم اس سال احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ شدت محسوس کی گئی ہے۔

امن و امان برقرار رکھنا اولین ترجیح ہے، پولیس کا مؤقف

احمدی کمیونٹی کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر پولیس کے افسران  کا مؤقف تھا کہ پولیس کی اولین ترجیح امن و امان برقرار رکھنا ہے۔

ان  پولیس افسران کا کہنا تھا کہ احمدیوں کو  " قربانی" سے نہیں روکا جا رہا اور مذہبی جماعتوں کے افراد کو بھی سختی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ  ہرگز قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

گوجرانوالہ پولیس کے افسران کے مطابق ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ عید کے ایام میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقین کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے گا تاکہ کوئی بھی فریق حالات کی خرابی کا باعث نہ بن سکے۔

گزشتہ سالوں کے دوران بھی عید الضحیٰ کے تین دنوں میں احمدی کمیونٹی کے افراد کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور 298 بی کے تحت جماعت احمدیہ کے کسی رکن کو  خود مسلمان ظاہر کرنے، شعائر اسلام کو انجام دے کر خود کو مسلمنا ظاہر کرنے  اور  اپنی عبادت گاہوں کے لیے اسلامی اصطلاح استعمال کرنے پر پابندی ہے اور ایسا کرنے پر تین سے دس برس تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جماعت احمدیہ کے اراکین اس قانون کو ناانصافی پر مبنی قرار دیتے ہیں جب کہ انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں ان قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔

احمدی کمیونٹی کے افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ سال 2022 اور 2023 میں عید الضحیٰ کے موقع پر جو مقدمات درج ہوئے تھے ان میں سے کچھ مقدمات میں ملوث افراد بری ہو چکے ہیں۔

پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ  شکایات سامنے آنے پر بروقت حفاضتی کارروائی نہ کرین تو کسی معمولی واقعہ سے امن عامہ کے لئے خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

مزیدخبریں