زین مدنی: معروف موسیقار و گلوکار ساحر علی بگا کا کہنا ہے کہ انہیں میوزک کنسرٹ اور ڈراموں کے مقابلے فلموں کے لیے گانے تیار کرنا اچھا لگتا ہے اور ان کی اولین ترجیح سینما کے لیے گانے بنانا ہے۔
گلوکار ساحر علی بگا نے کہ حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں گلوکاری سے زیادہ موسیقی ترتیب دینے کی لگن رہتی ہے۔
موسیقار کے مطابق انہیں موسیقی اور دھن تیار کرنے میں مزہ آتا ہے اور جب وہ دھن تیار کرلیتے ہیں تب وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی موسیقی کو کون گلوکار اچھے طریقے سے گا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ موسیقی تیار کرنے کے بعد بڑے یا چھوٹے گلوکار کی تفریق کیے بغیر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنی دھن کس گلوکار کو دینی چاہئیے۔ساحر علی بگا کے مطابق وہ محنت کرکے دھن تیار کرتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرتے کہ مذکورہ گانا انہیں خود گانا چاہئیے۔
ایک سوال کے جواب مین انہوں نے بتایا کہ انہیں سب سے زیادہ مزہ راحت فتح علی خان کے ساتھ کام کرنے میں آتا ہے، کیون کہ وہ ان کی تیار کی گئی دھن کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ راحت فتح علی خان اتنے بڑے گلوکار ہونے کے باوجود تیار کی گئی دھن میں اپنی مرضی سے کوئی تبدیلی نہیں کرتے اور اگر انہیں کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ موسیقار سے مشورہ کرتے ہیں۔
معروف ملی نغمے ’پاکستان زندہ باد‘ کی تیاری کے حوالے سے ساحر علی بگا کا کہنا تھا کہ 2019 میں ان کی جانب سے نغمہ تیار کرنے سے قبل پاکستان کو ایک بڑی کامیابی ملی تھی، جس وجہ سے ان کا دل بہت خوش تھا اور انہوں نے جذبے میں آکر ’پاکستان زندہ باد‘ نغمہ بنایا۔انہوں نے پاک فضائیہ کی جانب سے 27 فروری 2019 کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی اور ان سمیت اس وقت ہر کوئی خوش تھا۔گلوکار کے مطابق بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بعد جب انہیں گانا بنانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے صرف یہ سوچا کہ جب پاکستان بنا تو سب سے پہلے لوگوں کے لبوں پر کیا الفاظ تھے؟
ساحر علی بگا نے بتایا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد اس وقت لوگوں نے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے اور انہوں نے ان ہی الفاظ سے ملی نغمہ بنایا، جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ایک سوال کے جواب میں موسیقار کا کہنا تھا کہ ان کے والد انہیں بتاتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان میں ہر جمعے کے دن سینمائوں میں 4 فلمیں لگتی تھیں اور مہینے میں تقریبا 28 فلمیں سینماؤں میں پیش کی جاتی تھیں لیکن اب سال مین صرف دو فلمیں بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری پھر سے اپنے عروج پر آئے، اس لیے ان کی ترجیح ڈراموں یا میوزک کنسرٹ کے بجائے فلموں کے لیے گانے تیار کرنا ہے۔
ساحر علی بگا کے مطابق ماضی میں ایک ماہ میں 28 فلمیں بنتی تھیں اور ہر فلم میں 6 گانے ہوتے تھے تو اس وقت گانے بھی زیادہ بنتے تھے، جس وجہ سے موسیقار اور گلوکار بھی پیدا ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ اب جہاں فلمیں کم بنتی ہیں، وہیں گانے بھی بہت کم بنائے جاتے ہیں اور پھر اب گانوں کے کامیاب ہونے کے امکانات بھی بہت کم ہوگئے ہیں۔