ویب ڈیسک: یونان کے سمندر میں کوسٹ گارڈز کی موجودگی میں ڈوب جانے والی تارکین وطن سے بھری کشتی کےسب سے نچلے حصہ میں پاکستانی بھرے ہوئے تھے جن کے زندہ بچ جانے کا امکان سب سے کم تھا۔
اس کشتی کے حادثہ کے متعلق اب تک بہت کم معلوم ہو سکا ہے تاہم کل پیر کے روز اس بدقسمت کشتی کے انچارج مصری اسمگلروں کے گروہ کے نو مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو ممکن ہے کہ کم از کم یہ پتہ چل جائے کہ کل کتنے بدقسمت انسان اس کشتی میں ٹھونسے گئے تھے۔
کشتی کے حادثہ میں زندہ بچ جانے والے مسافروں کی مزید شہادتوں کی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کو اس بدقست کشتی میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تھا اوور انہیں کشتی کے سب سے زیادہ خطرناک ایریا میں رکھا گیا تھا۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے مسافروں کے بیانات سے یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ
کیا یونانی کوسٹ گارڈ نے اس سانحے میں اپنے کردار کو چھپا دیا ہے؟۔ اس کشتی میں سوار تقریباً 500 افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کے نئےبایانات بتاتے ہیں کہ خواتین اور بچوں کو کشتی کے نچلے حصہ میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، اور یہ کہ بعض قومیتوں کو ٹرالر کے سب سے خطرناک حص میں رکھا گیا تھا۔
زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے کوسٹ گارڈز کو بتائی گئی لیک ہونے والی شہادتوں کے مطابق، پاکستانیوں کو ڈیک کے نچلے حصہ میں زبردستی بھیجا گیا، دوسری قومیتوں کے مسافروں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی، جہاں ان کے ڈوبنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکان تھا۔
زندہ بچنے والے مسافروں کی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو بظاہر بھیڑ بھرے جہاز پر مردوں کی طرف سے "محفوظ" رکھنے کے لیے کشتی کے ہولڈ میں مؤثر طریقے سے "بند" کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بھی ڈیک کے نیچے رکھا گیا تھا، جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں کشتی کے بالائی حصہ میں نظر آتے تھے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے تو عملے کے ارکان ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کرتے پائے گئے تھے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ کشتی میں سوار عورتوں اور بچوں میں سے شای ہی کوئی زندہ بچ پایا ہو جبکہ پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے حوالہ سے دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کےسینکڑوں شہریوں کے پیلوپونیس جزیرہ نما کے قریب زنگ آلود ٹرالر کے ڈوبنے سے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستانی میڈیا کی اطلاع ہے کہ کم از کم 298 پاکستانی اس کشتی کے ڈوبنے سے ہلاک ہوئے، جن میں سے 135 کشمیر کے پاکستانی حصے سے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق جہاز میں تقریباً 400 پاکستانی سوار تھے۔پاکستان کی وزارت خارجہ نے اب تک صرف اتنی تصدیق کی ہے کہ زندہ بچ جانے والے 78 میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے تھا۔
کشتی کے حالات اتنےخراب تھے کہ اس کے ڈوبنے سے پہلے ہی اس میں تازہ پانی ختم ہونے کے بعد چھ افراد پانی نہ ملنے سےہلاک ہو چکے تھے۔
ایک مراکشی-اطالوی سماجی کارکن اور ایکٹوسٹ نوال سوفی نےبتایا ہےکہ اس کشتی کے مسافرڈوبنے سے ایک دن پہلے مدد کے لیے التجائیں کر رہے تھے۔ نوال سوفی نے کہا، "میں گواہی دے سکتی ہوں کہ یہ لوگ کسی بھی اتھارٹی سے بچائے جانے کے لیےاپیلیں کررہے تھے" اس نے کہا۔ گارڈین کے مطابق اس خاتون ایکٹوسٹ کو بیان یونانی حکومت کے اس موقف سے متصادم ہے کہ مسافروں نے کوسٹ گارڈ کو بتایا کہ مدد کے لیے کوئی درخواست نہیں کی گئی کیونکہ وہ اٹلی جانا چاہتے تھے۔
زندہ بچنے والوں کی گواہیوں سے اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ٹرالر کا انجن ڈوبنے سے کافی وقت پہلے فیل ہو گیا تھا، جس سے امکان ہے کہ عملے نے مدد ضرور طلب کی ہو گی۔ ایک مسافر نے بتایا کہ "ہم نے جمعہ کی صبح فجر کے وقت سفر شروع کیا۔ ہم تقریباً 700 افراد جہاز میں سوار تھے،‘‘ ایک تارک وطن نے تباہی کی تحقیقات کی نگرانی کرنے والے کوسٹ گارڈز کی گواہی میں کہا۔ "ہم تین دن سے سفر کر رہے تھے اور پھر انجن فیل ہو گیا۔"
کشتی حادثہ بدھ کے روز ہوا تھا اور اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ کشتی ڈوبی کس وجہ سے تھی۔ ایک تشویشناک بات یہ سامنے آ رہی ہےکہ کشتی ڈوبنے کے وقت اس کے ساتھ یونانی کوسٹ گارڈز کی رسی بندھی ہوئی تھی۔ ابتدائی بیانات میں یونانی کوسٹ گارڈ نے کہا تھا کہ اس نے کشتی سے "محتاط فاصلہ" رکھا ہہوا تھا، لیکن جمعہ کو ایک حکومتی ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو "مستحکم" کرنے کے لیے رسی پھینکی گئی تھی۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کی اوسنابروک یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار مائیگریشن ریسرچ اینڈ انٹر کلچرل اسٹڈیز کے موریس اسٹیرل نےکہا ہے کہ "ہیلینک کوسٹ گارڈ کشتی ڈوبنے کی وجہ کے حوالہ سے کشتی کے وزن میں اچانک تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ تو وزن میں اچانک تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ کیا کشتی کے عرشہ پر گھبراہٹ پھیل گئی تھی؟ کیا انہیں کچھ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران کچھ ہوا؟ یا اس کشتی کو کھینچا گیا تھا؟ اور کیا اس کھینچنے کی وجہ سے کشتی نیچے چلی گئی؟
یہ سوالات بھی کئے جا رہے ہیں کہ کیا یونانی کوسٹ گارڈ کو اس بوڑھے ٹرالر کو اپنی تحویک میں لے کر ساحل تک لے جانےکے لیے پہلے مداخلت کرنی چاہیے تھی۔ سرکاری حکام نے تصدیق کی ہے کہ گشتی کشتیاں اور مال بردار بحری جہاز منگل کی سہ پہر سے اس ٹرالر کی نگرانی کر رہے تھے۔