مانیٹرنگ ڈیسک: اضلاع کی سطح پر ترقیاتی فنڈز کو لیپس ہونے سے بچانے کیلئے قرارداد قومی اسمبلی میں منظورکرلی گئی۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، وفاقی وزیر خورشید شاہ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے مالی سال کے اختتام پر فنڈز کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ان لیپس ایبل اکاؤنٹ میں رکھا جائے۔
سائرہ بانو کا کہنا تھا کہ گزشتہ پچیس دنوں سے ڈرایا جارہا ہے کہ بات مت کرو استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی، کہا گیا یہ پارٹی ملک کو استحکام بخشے گی، کہا جاتا تھا کہ جہانگیر ترین اے ٹی ایم ہے، علیم خان بلڈر مافیا ہے، عون چودھری ڈرگ ڈیلر ہے، بتائیں تو سہی کیسے استحکام آئیگا، میں کیسے یقین دلاؤں کہ میں محب وطن ہوں۔
انھوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو بڑھا دیں لیکن نجی شعبے کے بارے میں کون سوچے گا، تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے لیکن تب کیا ہو گا جب افراط زر 40 فیصد بڑھ جائے گی، ہمیں آئی ایم ایف کا بجٹ نہیں چاہیے، بیوروکریٹس کی وجہ سے گالیاں ہمیں پڑتی ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد جن وزارتوں کی وفاق میں ضرورت نہیں انہیں ختم کردیا جائے۔
محسن داوڑ کا کہنا تھا لاء اینڈ آرڈر کی حالت دن بدن خراب ہورہی ہے، وہاں پر جنگ کی تیاری کی جارہی ہے انتخابی مہم کیسے چلائیں گے، میرانشاہ بازار کے متاثرین کو ابھی تک معاوضے نہیں ملے، دس سال تک مزید ٹیکس سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔
رکن قومی اسمبلی ریاض مزاری نے گلہ کیا ایوان میں بجٹ پر کم اور سیاسی تقاریر زیادہ ہو رہی ہیں، جے یو آئی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ نو مئی کے واقعات سے غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوئی ایسی غیر یقینی صورتحال میں اس بجٹ کو بہترین کہنا درست نہیں، نئے سپہ سالار نے جس طرح فوج کو سنبھالا اس سے فوج کی نیک نامی ہوگی، اجلاس پیر کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔