مانیٹرنگ ڈیسک : سانحہ ماڈل ٹاوْن میں میرے سامنے میری والدہ اور پھوپھی کی جان لے لی گئی۔
میری عمر اس وقت 20 سال ہے، سات سال پہلے جب میں صرف 13 برس کی تھی میں اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ لاہور کے ماڈل ٹاوْن ایریا میں تحریک منہاج القرآن کے دفتر گئی تھی۔ وہاں پولیس ان رکاوٹوں کو ہٹانا چاہتی تھی جو پاکستان عوامی تحریک کے آفس اور طاہر القادری کے گھر کی حفاظت کے لیئے لگائی گئیں تھیں۔ رکاوٹوں کی ایک جانب عوامی تحریک کے کارکن موجود تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں اور جب کہ دوسری طرف مسلح پولیس کے دستے موجود تھے۔
پولیس رکاوٹیں ہٹانے میں ناکام ہو گئی تو تصادم شروع ہو گیا۔ پولیس نے پہلے آنسو گیس کے شیل پھینکے پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ میں اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ وہاں ہی موجود تھی۔ اچانک پولیس کی طرف سے چلائی گئی ایک گولی میری والدہ کے چہرے پر لگی اور ایک گولی میری پھوپھی کے سینے میں پیوست ہو گئی۔
بسمہ جو اب 20 برس کی ہو چکی ہے، سات سال پہلے کے سانحہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب اس کی والدہ کو ایمبولنس میں ڈال کر اسپتال لے جایا جا رہا تھا اس وقت وہ زندہ تھیں لیکن اسپتال پہنچتے ہی انہوں نے دم توڑ دیا تھا۔ بسمہ کی پھو پھی بھی سینے پر گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی تھیں۔
بسمہ نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو میں بتایا کہ وہ پچھلے سات سال سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں شریک ہو رہی ہے۔ لیکن اسے انصاف نہیں مل سکا۔