سٹی42: شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی آج حیات 93 ویں سالگرہ، بر صغیر پاک و ہند میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں، مہدی حسن کی گائیگی بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبول ہے اور بھارت کی ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر نے ایک بار مہدی حسن کی گائیگی کو ’بھگوان کی آواز‘ سے منسوب کیا تھا۔
مہدی حسن ایک سادہ طبیعت انسان تھے اوربعض اوقات بات سیدھی منہ پر کر دیا کرتے تھے۔ فلمی موسیقی کے زرخیز دور میں مہدی حسن کو احمد رشدی کے بعد دوسرے پسندیدہ گلوکار کا درجہ حاصل رہا۔ مہدی حسن 1927ء میں راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے، اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی، خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولھویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔
1947ء میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ نقلِ وطن کر کے پاکستان آگئے اور پنجاب کے ایک شہر چیچہ وطنی میں محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔ انھوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر میکینک اور اس کے بعد ٹریکٹر کے میکینک بن گئے، لیکن رہینِ ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا ریاض جاری رکھا۔
بھارت میں اُن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہر ہوا کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں، نیپال کے شاہ بریندرا اُن کے احترام میں اُٹھ کے کھڑے ہوجاتے تھے اور فخر سے بتاتے تھے کہ انھیں مہدی حسن کی کئی غزلیں زبانی یاد ہیں۔
حکومت پاکستان ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغائے امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نواز چکی ہے۔ 1979ء میں مہدی حسن کو بھارتی سرکار نے اپنے ہاں کا ایک بڑا کے ایل سہگل ایوراڈ دیا۔