ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

 اسرائیل کے پاس بفر زون میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، شام اور قطر کے رہنماؤں کی مشترکہ نیوز کانفرنس

Ahmad Alsharaa, City42, Syria and Qatar, Israel Syria buffer zone, Turkey and Qatar backing Hayyt e Tahrir alsham, city42
کیپشن: دمشق مین قطر کے وزیر اعظم کے پہلے دورہ کے دوران شام کے نئے ڈی فیکٹو حکمران احمد الشراع وزیراعظم الثانی کے ساتھ جوائنٹ نیوز کانفرنس کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  شام کے ڈی فیکٹو سربراہ احمد الشارع نے کہا ہے کہ  اسرائیل کے پاس بفر زون میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
دمشق میں قطر کے  وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی  کے ساتھ پہلی ملاقات کے بعد  مشترکہ پریس کانفرنس میں احمد الشارع نے کہا کہ دمشق اقوام متحدہ کے امن دستوں کی شام اور اسرائیل کے درمیان "غیر فوجی زون" میں موجودگی کا خیرمقدم کرے گا۔ 

Caption شام کی عرب خبر رساں ایجنسی SANA کی طرف سے جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں شام کے نئے رہنما احمد الشعراء (ر) کو قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کا 16 جنوری 2025 کو دمشق، شام میں استقبال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ (SANA/AFP) )


شام کے ڈی فیکٹو لیڈر  احمد الشراع نے قطر کے وزیراعظم کی موجودگی میں کہا کہ دمشق کی جانب سےملک میں ایران کی موجودگی سے چھٹکارا پانے کے بعد اسرائیل کے پاس اب دونوں ممالک کے بفر زون میں موجود رہنے کا کوئی "عذر" نہیں رہا، اور کہا کہ وہ 1974 کے اسرائیل اور شام کے معاہدے کے تحت بفر زون میں جسے انہوں نے "غیر فوجی زون" کہا،  اقوام متحدہ کے امن دستوں کا خیرمقدم کرے گا۔

احمد الشراع نے  جمعرات کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دمشق میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے بفر زون پر قبضے کی مذمت بھی کی۔

دوسری جانب اسرائیل نے کہا ہے کہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے درمیان سرحدی علاقے کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے 1974 سے قائم بفر زون میں آئی ڈی ایف کا کنٹرول عارضی اور ضروری ہے۔

اگرچہ الشراع کے تبصرے اسرائیلی دراندازی کی طرف سخت لہجے کو ظاہر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن الشراع کے ہئیتِ تحریر الشام جہادی گروپ نے بدھ کے روز جنوبی شام میں ہتھیاروں کے ایک قافلے کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں نئی ڈیفیکٹو حکومت کے فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ 

الشارع نے کہا کہ ہم نے بین الاقوامی حکام کو مطلع کیا ہے کہ شام 1974 کے معاہدے کی شرائط کا احترام کرتا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ "ہر کوئی جانتا ہے کہ پیش قدمی ایک غلطی تھی اور یہ کہ [ہمیں] حالات کی طرح واپس جانا چاہیے۔"

شارع نے دسمبر میں اس علاقے میں اسرائیل کی منتقلی کے فوراً بعد بھی اسی طرح کے تبصرے کیے تھے۔

الشراع نے کہا کہ ان کے حکام قطر کی حمایت پر بھروسہ کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کو شام کی سرزمین میں مزید پیش قدمی کرنے سے روکا جا سکے۔

انہوں نے اس دباؤ میں قطر کے "مرکزی کردار" کو سراہتے ہوئے مزید کہا کہ قطر "اس نظریے کی حمایت کرتا ہے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے دستیاب تمام ذرائع استعمال کرے گا"۔

کئی دہائیوں تک، گولان کی پہاڑیوں میں شامی اسرائیل کی سرحد 1974 کے معاہدے کے تحت کافی حد تک خاموش رہی، جس نے 1974  کی یوم کپور جنگ میں لڑنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی غیر فوجی بفر زون قائم کیا تھا۔

اسد کے گرنے کے فوراً بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے متصل  بفر زون میں فوج ہی نہیں بھیجی بلکہ اسرائیلی طیاروں نے کئی دن تک شام بھر میں شام کی تب کی قومی فوج، (اسد کی وفادار فوج) کے سینکڑوں ٹھکانوں پر مسلسل بمباریاں کی تھیں۔ احمد الشراع اور ان کی جہادی تنظیم ہئیت تحریر الشام ان بمباریوں پر مکمل خاموش رہے۔

اسرائیل نے واضح الفاظ مین بار بار بتایا تھا کہ وہ بشار الاسد  (اور حافظ الاسد) کے بنائے ہوئے بہت بڑے فوجی بلڈ اپ اور انفراسٹرکچر، سٹریٹیجک ہتھیاروں کو کسی طالع آزما گروہ کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لئے تباہ کر رہا ہے۔ اس وقت اور اس کے بعد بشار الاسد کے ہتھیاروں پر دسترس حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا گروہ صرف ہئیت تحریر الشام ہی تھا۔

ہفتہ کے روز الشراع نے اپنے پڑوسی قطر کے دباؤ کو اسرائیل کی بفر زون میں موجودگی کو پیچھے ہٹانے کے لئے استعمال کرنے کا بھی عندیہ دیا لیکن ساتھ ہی اصرار کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتے۔ الشراع  کا اصل اصرار اس نکتہ پر ہی رہا کہ ایران کی افواج کے شام سے نکل جانے کے بعد اسرائیل کے پاس شام میں دراندازی کے لیے "مزید کوئی بہانہ نہیں" ہے۔

ایران، جو کھلے عام اسرائیل کی تباہی کے لیے پرعزم ہے، اس نے 2011 میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اسد حکومت کی حمایت کی تھی اور حافظ الاسد کی حکومت کو سہارا دینے کی آڑ مین ہزاروں کی تعداد میں پاسدارانِ انقلاب اور فوجی سے سیاسی تک بہت سے مشیر دمشق بھیج دیئے تھے۔ ایران کے زیر اچر حزب اللہ نے بھی بشار الاسد کے آخری مہینوں تک شام میں ان کی عملی مدد کی تھی۔ تاہم اکتوبر میں خود حزب اللہ کے اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے کے بعد سے شام میں حزب اللہ اور ایران دونوں نے اپنے آپریشنز سمیٹ لئے تھے جس نے بعد کے ہفتوں میں ہئیت تحریر الشام کی غیر معمولی مینوورنگ کا راستہ روکنے میں بشار الاسد کی ناکامی میں کردار ادا کیا۔

اسرائیل کی دراندازی پر شارع کی تازہ ترین تنقید  ان کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے بھی انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے کہ دمشق 1974 کے معاہدے کا پابند ہے لیکن اسرائیل کو "شام کی خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا۔"

 دمشق میں خطاب کرتے ہوئے قطر کے وزیراعظم  الثانی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو  بفر زون سے "فوری طور پر پیچھے ہٹنا چاہیے"۔

 جب سے باغیوں نے دمشق پر قبضہ کیا، ملک کی طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعدا لثانی کا شام کا پہلا دورہ تھا ۔

Caption اسرائیلی فوج  کے سپاہی 20 دسمبر 2024 کو مجدل شمس کے قصبے میں، نام نہاد الفا لائن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو شام سے اسرائیلی زیر کنٹرول گولان کی پہاڑیوں کو الگ کرتی ہے، حفاظتی باڑ کو عبور کرنے سے پہلے ایک بکتر بند گاڑی کے پاس کھڑے ہیں۔

الثانی نے شام کی بحالی کی کوششوں کے لیے قطر کی حمایت کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک "مستقبل کی شراکت داری کے لیے اپنے شامی بھائیوں کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔"

دوسرے عرب ممالک کے برعکس جنہوں نے جنگ کے آغاز میں دمشق سے رشتہ توڑ لیا تھا، قطر نے کبھی بھی اسد حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی تجدید نہیں کی تھی۔قطر  ترکی کے ساتھ مل کر،شام میں بشار الاسد کے مخالف مسلح باغیوں کی پشت پناہی کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا۔ اسد کی معزولی کےفوراً ہی بعد، قطر ترکی کے بعد شام کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے والی دوسری ریاست تھی۔

گزشتہ ہفتے شام کی قومی بجلی کمپنی نے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے دمشق پر کچھ پابندیوں میں نرمی کے بعد قطر اور ترکی سپلائی بڑھانے کے لیے پاور پلانٹ کے جہاز بھیجیں گے۔ دمشق میں ایک سفارتی ذریعے نے بتایا  ہے کہ دمشق کی جانب سے پبلک سیکٹر کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے کے بعد قطر شام کو فنڈز فراہم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔