ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا المناک زوال؛ پالیسی نہ ملی تو پیداوار مزید گرے گی

Cotton yield declined , Cotton Jining industry, cotton policy
کیپشن: نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی حکومت کی معمولی کوشش سے پنجاب میں کپاس کی بمر کراپ ہوئی لیکن حکومت کسانوں کو مارکیٹ سے مناسب قیمت نہ دلوا سکی، اب دو ہی سال مین پاکستان میں کپاس کی پیداوار سکڑ کر انتہائی کم سطح پر آ گئی ہے جس سے جننگ انڈسٹری کو بحران کا سامنا ہے۔ جنوبی پنجاب میں کپاس چنتی عورتوں کی یہ فائل فوٹو اب مسلسل کم ہوتےفنامنا کی عکاس ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پاکستان میں کپاس کی پیداوار کو انسانی دنبی سٹی کھا گئی، پیداوار پندہ  ملین بیلز سے گر کر پانچ ملین بیلز رہ گئی، حکومت صرف ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن کاٹن گروور کو پیداوار کی مناسب قیمت لے کر دینے کے لئے مداخلت نہیں کرتی۔  کاشتکاروں کے کپاس کی پیداوار سے ہاتھ کھینچ لینے کے نتیجہ میں مختصر وقت میں پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں چوتھے سے ساتویں نمبر پر چلا گیا۔
  چیئرمین پاکستان کاٹن جننرز  کے چئیرمین ڈاکٹر جیسو مل نے میڈیا سے ایک گفتگو میں انکشاف کیا کہ  کہ کپاس کو ترجیح نہیں دی جارہی،پاکستان کپاس کی  پیداوار میں چوتھے سے ساتویں نمبر پر چلاگیا ہے

 ڈاکٹر جیسومل نے کہا کہ کپاس پاکستانی کسان کا وائٹ گولڈ ہے، اسے زندہ رہنے دیں گے تو کسان زندہ رہ سکے گا۔ 

فیڈریشن ہاؤس کراچی میں کاٹن بحالی کے معاملے پر  پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کاٹن جننرز  کے چئیرمین ڈاکٹر جیسو مل نےکہا کہ کپاس کی پیداوار  بڑھانے کے لیے پائیدار پالیسی دی جائے۔

 پاکستان کے کاٹن جننرز  کو شکایت ہے کہ  کپاس کو حکومتی پالیسیوں میں اب ترجیح نہیں دی جارہی، مقامی کاٹن انڈسٹری کا اب درآمدات پر انحصار ہے۔ جننگ لیول تک ٹیکسوں نے چھوٹے جنرز کی کمر توڑ دی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کاٹن کی پیداوار بڑھانے کے لئے ضروری انسینٹیوز پر مشتمل پالیسی بنائے اور جینرز کی سظح تک نافذ فالتو ٹیکس ختم کئے جائیں۔ 

سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے ڈاکٹر جیسومل کے مؤقف کی تائیڈ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کپاس کی فصل بحالی کی پالیسی دے، کپاس کی پیداوار 14 ملین سے 5 ملین بیلز  پر آگئی ہے،کاٹن درآمد کرنے پر زیرو ڈیوٹی اور  زیرو سیلز ٹیکس ہے جب کہ مقامی سطح پرکپاس پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ہے۔

ثاقب فیاض مگوں نے بتایا میں ابھی بنگلادیش کا دورہ کر کے آیا ہوں، انہیں کپاس کی 10 ملین بیلزکی ضرورت ہے، بنگلہ دیش ہم سے کاٹن خریدنا چاہتا ہے۔

پنجاب میں کاٹن کی بمپر کراپ کے بعد مسلسل زوال

پنجاب میں 2022 میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن رضا نقوی نے کپاس کے کاشتکاروں کو اچھے بیج کی فراہمی، کھاد اور ادویات کی فراہمی، قرضوں اور کم سے کم سرکاری قیمت کی  مربوط پالیسیاں دینے کے ساتھ کپاس کی کاش بڑھانے پر مائل کیا تھا تو کم وقت میں زیر کاشت رقبہ میں حیران کن اضافہ ہوا تھا اور پنجاب میں کپاس کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔ اسی دوران فروری 2023 کے الیکشن نزدیک آ گئے، ملک میں سیاسی افراتفری  کا فائدہ اٹھا کر  منڈیوں میں کارٹیلنگ کرنے والے مافیا نے کسان کو اس کی محنت سے کاشت کی ہوئی بمپر کراپ کی سرکاری مقرر قیمت  8700 روپے فی من ادا نہین کی تھی۔ اس فصل کے برے حشر سے دلبرداشتہ کسانوں نے کپاس کی بجائے گنے اور دوسری فصلوں  کی کاشت اختیار کر لی جن سے ان کو منافع کم تو ملتا ہے لیکن کم از کم  کپاس جیسی بے یقینی نہیں ہوتی۔

Caption بظاہر  کاٹن پیداکرنے والے روایتی علاقوں میں شوگر ملیں لگانے کی اجازت دیئے جانے سے کپاس کی پیداوار کم ہونے کا رجحان شروع ہوا تھا جس نے پاکستان مین کاٹن جننگ اور یارن کی انڈسٹریز کی بنیادی تباہ کر ڈالیں۔ اب پاکستان اپنی سب سے بڑی ایکسپورٹ پروڈکٹ کاٹن ٹیکسٹائل اور فیبرک تیار کرنے کے لئے کپاس اور دھاگہ خود امپورٹ کر رہا ہے اور ملک مین کپاس پیدا کرنے والے کاشتکار اور جنرز پیچیدہ مسائل کا شکار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پالیسی نہ ملی تو باقی ماندہ کاشتکار بھی کپاس کی پیداوار سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔