ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بھاری ایکسائز ڈیوٹی لگا کر ایف بی آر کو صرف 247 ارب روپے زیادہ ریوینیو ملا

Excise Duty, Federal Bureau of Revenue, FBR,
کیپشن: وفاقی حکومت کا ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ ایکسائز ڈیوٹی جمع کرنے مین ایک بار پھر ناکام نظر آ رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایکسائز ڈیوٹی کنزیومرز کے کسی پروڈکٹ کو خریدنے کے وقت ہی ان کی جیب سے نکل جاتی ہے، اس ٹیکس کا سرکاری خزانہ تک نہ پہنچنا درحقیقت ٹیکس کلیکشن سسٹم کا بنیادی روگ ہے۔ ایک سٹور میں شاپنگ کرتی خاتون کی یہ تصویر گوگل کی مدد سے حاصل کی گئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: فیڈرل بیورو آف ریوینیو کی دستاویزات سے  انکشاف ہوا ہے کہ شہریوں پر بلا تفریق آمدن نافذ کئے گئے ٹیکس "ایکسائز ڈیوٹی" سے وفاقی حکومت کے ریونیو میں 207 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس میں سے زیادہ تر اضافہ صرف سیگریٹ پر بڑھائے گئے "ایکسائز ڈیوٹی" ٹیکس میں اضافہ کے سبب ہوا۔ باقی تمام اشیا پر نافذ ایکسائز ڈیوٹی کی کلیکشن کم ہوئی تاہم ان اشیا کے مینوفیکچررز اور امپورٹرز نے صارفین سے قیمت میں شامل کر کے ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی میں کسی کنزیومر کے ساتھ رعایت نہیں کی۔

ایف بی آر  کے ڈاکیومنٹس کےمطابق وفاقی حکومت نے 2024-2023  میں 577 ارب روپے  ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں جمع کیے، سگریٹس، سیمنٹ، مشروبات،ائیر ٹکٹ، کھاد پر ٹیکس ریونیو بڑھا۔ 

دستاویز کے مطابق سگریٹ پر ڈیوٹی 95 ارب اضافے سے 237 ارب روپے سے تجاوزکرگئی،  صرف سگریٹ سے ایف بی آر کو 142 بلین روپے اضافی ریوینیو ملا اور باقی 105 ارب روپے اضافی ایکسائز ڈیوٹی ریوینیو تمام کنزیومر پروڈکٹس سے وصول ہوا۔  سیمنٹ پر 11.32 ارب  اضافہ سے 77 ارب 71 کروڑ کی وصولی ہوئی، سوڈا واٹر مشروبات پر ٹیکس وصولی 113 فیصد اضافے سے 36.50 ارب  ہوئی۔

فضائی ٹکٹ پر ٹیکس وصولی 7.22 ارب اضافےسے 47 ارب سے تجاوزکرگئی، کھاد پر ایک سال میں 29 ارب روپے سے زیادہ ایکسائز ڈیوٹی وصول کی گئی، دودھ اور کریم کے استعمال میں اضافہ ہوا اور ایکسائز ڈیوٹی ریونیو بھی 5 ارب وصول ہوا۔

دستاویز  میں بتایا گیا ہے کہ پیٹرولیم ، دودھ، کریم، جوسز، سیرپ سے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا اور گزشتہ سال کی نسبت 56 فیصد زیادہ ایکسائز ڈیوٹی وصول کی گئی۔

ایکسائز ڈیوٹی؛ ریوینیو کم مہنگائی زیادہ

ایکسائز ڈیوٹی کنزیومرز پر بالواسطہ لگایا جانے والا ایسا ٹیکس ہے جو ہر کنزیومر کو اپنی مالی حیثیت سے قطع نظر ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مینوفیکچرر اور امپورٹر اپنی پروڈکٹس کی کنزیومر پرائس مین ایکسائز ڈیوٹی ( ٹیکس) بھی شامل کر دیتے ہیں، یہ پروڈکٹس خریدنے والے ہر شہری کو  ایکسائز ڈیوٹی لازماً ادا کرنا پڑتی ہے۔

گزشتہ مالی سال 2023,24 اور اس کے بعد موجودہ مالی سال بھی مہنگائی کے سیلاب کے سبب عام شہریوں اور کم آمدن والے شہریوں کے لئے معیار زندگی میں کمی کا سبب بنے، اس مین ایک بڑی وجہ کنزیومر پروڈکٹس پر ایکسائز ڈیوٹی کا اکراس دی بورڈ نفاذ ہی تھی۔ اس ڈیوٹی کے نافذ ہوتے ہی اشیا خواہ وہ ملک میں پیدا ہوئیں یا باہر سے امپورٹ کی گئیں، ان کی قیمتیں بیٹھے بٹھائے بڑھ گئیں۔ اب ایف بی آئی کی ایکسائز ڈیوٹی وصولی کی فگرز لیکن ایک متضاد تصویر پیش کر رہی ہیں۔

 جتنی مہنگائی ہوئی اتنی ایکسائز ڈیوٹی کلیکشن نہیں ہوئی۔ صرف سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے سے جتنا ریوینیو بڑھا اس سے کم ریوینیو سگریت سے زیادہ ہمہ گیر کنزیومر پروڈٹس کی سیل پر ایکسائز ڈیوٹی سے اکٹھا نہیں ہوا۔انڈیپینڈنٹ ذرائع بتاتے ہیں کہ مقامی پروڈکٹس اور امپورٹڈ پروڈکٹس پر ایکسائز ڈیوٹی اکٹھی کرنے میں بڑے پیمانہ پر بدعنوانی ٹیکس کلیکشن مین رکاوٹ ہے۔ ٹیکس کی رقم کنزیومرز کی جیبوں سے تو نکل رہی ہے لیکن ساری رقم سرکاری خزانہ تک نہیں پہنچ رہی۔