سٹی42: مراکش کشتی سانحہ کی تحقیقات کے نام پر ایف آئی اے نے 20 اہلکاروں کی تحقیقات شروع کرنے کی تشہیر کروا دی، گرفتار ایک بھی نہ کیا، گجرات سے دو معمولی ایجنٹ گرفتار کئے گئے اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ یونان کشتی حادثہ کے تمام سمگلر بھی آج کل مراکش میں ہی پہنچے ہوئے ہیں۔
مراکش میں غیرقانونی امیگرنٹس کی کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں 44 پاکستانیوں کی اموات کے بعد پاکستان مین ایف آئی اے کے 20 اہلکاروں کے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ ان اہلکاروں نے غیر قانونی امیگرنٹس کو ڈنکی مین سوار ہونے کے لئے پاکستان سے باہر جانے کی اجازت کیونکر دی تھی۔ پاکستان مین مراکش ڈِنکی سکینڈل کی تحقیقات کے نتیجہ مین اب تک گجرات مین صرف ایک گرفتاری ہوئی ہے جو ایک خاتون ہے جس کے متعلق شواہد ہیں کہ وہ ڈنکی کے مسافروں سے رقم وصول کرنے کے لئے جاتی تھی، اس جرم کے مرکزی مجرم ہر مرتبہ کی طرح زیر زمین جا کر گم ہو گئے ہیں اور ایف آئی اے معمول کی چھاپے مارنے کی سرگرمیوں سے تحقیقات کی فائلوں کا پیٹ بھر رہی ہے۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ جن 20 اہلکاروں کے متعلق انویسٹی گیشن کی جا رہی ہے ان اہلکاروں نے کشتی کے متاثرین کے سفری دستاویزات کو کلیئر کیا تھا۔ اب یہ شواہد موجود ہیں کہ پاکستان مین پیسہ بٹور کر انسانوں کو سمگل کر کے آخر کار ڈِنکی میں لادنے کے دھندے میں ملوث ہیومن سمگلرز نے موریطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں میں مقامی اہلکاروں کے ساتھ مل ملا کر محفوظ اڈے بنا رکھے ہیں۔ ان اڈوں کو ہیومن سمگلرز کی محفوظ جنت بھی کہا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کے طول و عرض میں ہیومن سمگلرز کو گاہک فراہم کرنے والے "ایجنٹ" بھی عملاً سیف ہیون میں ہی رہ رہے ہیں۔
مراکش سانحہ کے آفٹر میتھس
مراکش میں تارکین وطن کی کشتی کے سانحے میں مبینہ طور پر کم از کم 44 پاکستانیوں کی جانیں جانے کے بعد، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے اپنے 20 اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر تین بڑے ہوائی اڈوں پر متاثرین کے سفری دستاویزات کو کلیئر کیا تھا۔ ان تحقیقات کے دوران ایک بھی اہل کار کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
یہ" پیشرفت" وفاقی حکومت کی جانب سے مراکش میں کشتی کے المناک واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کرنے کے بعد ہونے والی دراصل کل تحقیقات ہے۔ 16 جنوری کو مغربی افریقہ سے سپین پہنچنے کی کوشش کے دوران درجنوں پاکستانی تارکین وطن ڈوب گئے تھے۔
ہفتہ کو ایک بیان میں، ایف آئی اے کے ترجمان نے کہا کہ ایجنسی نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے شبے میں اپنے 20 اہلکاروں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی "بریکنگ نیوز" سناتے ہوئے اقرار کیا ان حکام نے مبینہ طور پر ہوائی اڈوں پر بدقسمت کشتی کے متاثرین کو کلیئر کیا تھا۔
اگرچہ 36 پاکستانی شہریوں کو بچا لیا گیا ، کئی اب بھی لاپتہ ہیں جنہیں پاکستانی سفارتخانے کی رپورٹ کے مطابق مردہ تصور کیا جانا چاہیے۔
بدقسمت کشتی موریطانیہ سے 2 جنوری کو روانہ ہوئی تھی جس میں 86 تارکین وطن سوار تھے۔ مراکشی حکام نے بتایا کہ مسافروں میں سے 66 پاکستانی شہری تھے اور انہوں نے بتایا کہ اس نے حادثے کے بعد 36 افراد کو بچا لیا تھا۔
ایف آئی اے کے مشتبہ اہلکاروں میں فیصل آباد ایئرپورٹ کے آٹھ اور کراچی اور لاہور ایئرپورٹ کے چھ چھ افراد شامل ہیں۔ ایجنسی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ترکی اور لیبیا کے بعد موریطانیہ انسانی اسمگلنگ کے لیے "تیسرا اور "نیا راستہ" ہے۔
جب بھی غیر قانونی امیگرنٹس کے ساتھ کوئی بڑی خبر بنانے والا حادثہ ہو جاتا ہے تو پاکستان کے اندر ایک مخصوص عمل کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں اعلیٰ ترن سطح پر چیخا چنگھاڑا جاتا ہے اور مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاگ کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے اندر ہیومن سمگلنگ کے تمام نیٹ ورکس پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ ہیومن ٹریفکنگ کئی دوسرے غیر قانونی کاروباروں کی نسبت کہیں زیادہ کھلا کاروبار ہے جس کے کھلاڑی معاشرہ میں ہیومن ٹریفکر کی شہرت رکھتے ہیں۔ مقامی پولیس اور ایف آئی اے کے اہلکار ان تمام لوگوں کو جانتے ہیں لیکن یہ تب بھی اطمنان سے کام کرتے پائے جاتے ہیں۔
مراکش کشتی سانحہ کے آفٹر میتھس میں بھی ماضی کی طرح مخصوص ہدایات اور مخصوص سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے "حکومتی ردعمل کو مربوط کرنے" کی ہدایات جاری کیں اور وزارت خارجہ اور داخلہ سے کہا کہ وہ مراکشی کشتی کے سانحے کے پاکستانی متاثرین کو موثر اور بروقت امداد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ مراکش کشتی سانحہ کے تمام وکٹم وزارتِ خارجہ کی جیورسڈکشن میں ہیں لیکن عملاً وہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی دسترس سے دور کہیں سمندروں میں گم ہیں، مقامی ادارے انہیں "لاپتہ" تصور کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی نے اسحاق ڈار کی پریس ریلیز کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ڈار نے افغان شہریوں کی تیسرے ملک منتقلی سے متعلق ایک اجلاس کیا تھا، اسی اجلاس کے دوران انہوں نے مراکش کشتی سانحہ کا بھی جائزہ لے لیا۔اس اجلاس میں وزارت خارجہ، داخلہ کے سیکرٹریز اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
تین انسانی سمگلر گرفتار
ایف آئی اے نے آج گجرات سے خاتون اور اس کے بیٹے سمیت دو مبینہ انسانی سمگلروں (ایجنٹس) کو گرفتار کر لیا جبکہ آزاد جموں و کشمیر کے علاقے بھمبر سے ایک اور مشتبہ سمگلر (ایجنٹ) کو حراست میں لے لیا گیا۔
عورت نے اپنے تین بیٹوں کے انسانی اسمگلنگ کے بزنس میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک بیٹا خاور اپریل 2024 میں افریقی ملک کے اپنے پچھلے دورے کے بعد 10 لوگوں کو اپنے ساتھ سینیگال لے گیا تھا۔ یہ تمام سرگرمی عین اس دورانیہ مین ہوئی جب ایف آئی اے یونان کشتی حادثہ میں درجنوں پاکستانیوں کی موت کے آفٹر میتھس کو نمٹا رہی تھی اور نام نہاد صفایا مہم کی کامیابی کے دعوے میڈیا میں شائع کروا رہی تھی۔ یونان کشتی سانحہ میں مرنے والوں کو ڈنکی تک پہنچانے میں ملوث چند ہی افراد قانون کی گرفت میں آ سکے تھے، باقی سب ایف آئی اے کے اہلکاروں کی خوابیدہ آنکھوں سے آج تک اوجھل رہے، اس دوران ہیومن سمگلرز کو گاہک فراہم کرنے والے نیٹ ورکس مسلسل کام کرتے رہے جن کی پرفارمنس اب مراکش ڈِنکی سانحہ کی ہیڈ لائنز کے ذریعہ دنیا کے سامنے آئی۔
گجرات مین گرفتار ہونے والی عورت نے انکشاف کیا کہ اسکا بیٹا حسن اٹلی میں مقیم تھا جبکہ اس کا دوسرا بیٹا سانحہ کشتی ڈوبنے کے بعد سے روپوش ہے۔ ایجنسی نے ایک روز قبل گجرات کے گاؤں "جوڑہ"سے خاتون کو گرفتار کرنے کے بعد بینک اکاؤنٹ اور موبائل فون سے تفصیلات اکٹھی کی تھیں۔ وہ "تفصیلات" ہیں جنہیں دراصل حاصل نہیں کرنا پڑتا، یہ کام آرٹیفیشل انٹیلیجنس روبوٹ کسی تشہیر کے بغیر تقریباً مفت کر سکتے ہیں۔
موریطانیہ میں "سیف ہاؤس"
انسانی سمگلنگ گینگ کے لوگ مارچ 2024 میں موریطانیہ میں مقامی اہلکاروں کی ملک بھگت سے سیف ہاؤسز بنا کر اپنے دھندے کو ایڈوانس سٹیج پر لے گئے تھے۔ گزشتہ سال جون میں اس گینگ کے پاکستان میں موجود ایجنٹوں نے لوگوں کے ساتھ بڑے پیمانہ پر سودے طے کئے۔ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو موریطانیہ پہنچانا شروع کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق، اس گینگ کےسمگلر اپنے گاہکوں کو ہوائی سفر کے ذریعے سینیگال لے جاتے تھے۔ سینی گال سے ان گاہکوں کو زمینی راستوں سے موریطانیہ لے جایا جاتا تھا۔
وفاقی ایجنسی کے مطابق موریطانیہ کے ان سیف ہاؤسز میں اب بھی متعدد پاکستانی موجود ہیں جو مراکش کے راستے سپین پہنچنا چاہتے تھے۔
ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ماہ " یونان کشتی سانحہ" کا مرکزی سمگلر قمر الزمان بھی کئی دیگر سمگلروں کے ساتھ موریطانیہ میں موجود تھا جو جون 2023 میں پیش آنے والے اسی طرح کے واقعے کے بعد مختلف ممالک سے فرار ہو کر شمال مغربی افریقی ملک فرار ہو گئے تھے۔
ان سمگلروں میں افضل ججہ بھی شامل تھا جو یونان کے قریب کشتی الٹنے کے بعد لیبیا سے بھاگ گیا تھا۔
13 اور 14 دسمبر 2024 کی درمیانی شب یونان کے قریب کشتیاں الٹنے سے 80 سے زائد پاکستانی ڈوب گئے تھے۔